سورة ھود - آیت 78

وَجَاءَهُ قَوْمُهُ يُهْرَعُونَ إِلَيْهِ وَمِن قَبْلُ كَانُوا يَعْمَلُونَ السَّيِّئَاتِ ۚ قَالَ يَا قَوْمِ هَٰؤُلَاءِ بَنَاتِي هُنَّ أَطْهَرُ لَكُمْ ۖ فَاتَّقُوا اللَّهَ وَلَا تُخْزُونِ فِي ضَيْفِي ۖ أَلَيْسَ مِنكُمْ رَجُلٌ رَّشِيدٌ

ترجمہ ترجمان القرآن - مولانا ابوالکلام آزاد

اور اس کی قوم کے لوگ (اجنبیوں کے آنے کی خبر سن کر) دوڑتے ہوئے آئے، وہ پہلے سے برے کاموں کے عادی ہو رہے تھے، لوط نے ان سے کہا، لوگو یہ میری بیٹیاں ہیں (یعنی بستی کی عورتیں جنہیں وہ اپنی بیٹیوں کی جگہ سمجھتا تھا اور جنہیں لوگوں نے چھوڑ رکھا تھا) یہ تمہارے لیے جائز اور پاک ہیں، پس (ان کی طرف ملتفت ہو، دوسری بات کا قصد نہ کرو اور) اللہ سے ڈرو، میرے مہمانوں کے معاملہ میں مجھے رسوا نہ کرو، کیا تم میں کوئی بھی بھلا آدمی نہیں؟

تفسیر القرآن کریم (تفسیر عبدالسلام بھٹوی) - حافظ عبدالسلام بن محمد

وَ جَآءَهٗ قَوْمُهٗ يُهْرَعُوْنَ اِلَيْهِ : ’’هَرَعَ‘‘ (ف) کا معنی کسی کو تیزی سے دھکیلنا ہے۔ فعل مجہول کا مطلب یہ ہے کہ جب اس خبیث قوم کو لوط علیہ السلام کے گھر ایسے حسینوں کے آنے کی خبر ملی تو وہ ان کی طرف تیزی سے اس طرح بے اختیار دوڑتے ہوئے آئے جیسے کوئی انھیں پیچھے سے دھکیل رہا ہے۔ وَ مِنْ قَبْلُ كَانُوْا يَعْمَلُوْنَ السَّيِّاٰتِ : فعل مضارع پر ’’ كَانَ ‘‘ آئے تو استمرار اور ہمیشگی کا معنی دیتا ہے، الا یہ کہ اس کے خلاف کوئی دلیل ہو۔ اس لیے زمخشری نے اس کا معنی کیا ہے : ’’ وَ مِنْ قَبْلِ ذٰلِكَ الْوَقْتِ كَانُوْا يَعْمَلُوْنَ الْفَوَاحِشَ وَيُكْثِرُوْنَهَا فَضَرَوْا بِهَا وَمَرَنُوْا عَلَيْهَا ‘‘ ’’اس سے پہلے وہ یہ برے کام کثرت سے کرتے تھے، حتیٰ کہ یہ ان کی عادت بن چکی تھی۔‘‘ یعنی کوئی آدمی شروع شروع میں ایسا غلیظ فعل کرنے سے کچھ جھجکتا ہے مگر یہ لوگ بے اختیار تیزی سے اس لیے آئے کہ کثرت سے اس فعل بد کے ارتکاب نے ان کی حیا اور جھجک بالکل ختم کر دی تھی۔ قَالَ يٰقَوْمِ هٰۤؤُلَآءِ بَنَاتِيْ ....: جب وہ گھس آئے اور شدت سے مہمانوں کو اپنے حوالے کرنے کا مطالبہ کرنے لگے تو لوط علیہ السلام نے مہمانوں کی عزت بچانے کے لیے اپنی تواضع کی انتہا کر دی، کہا یہ میری بیٹیاں ہیں، یہ تمھارے لیے بہت پاکیزہ ہیں، اللہ سے ڈرو! مجھے میرے مہمانوں میں رسوا نہ کرو۔ کیا تم میں ایک بھی بھلا آدمی نہیں؟ یہاں مفسرین نے بیٹیاں پیش کرنے کی مختلف توجیہیں کی ہیں۔ اشرف الحواشی میں ہے کہ ’’ بَنَاتِيْ ‘‘ (بیٹیوں) سے مراد ان لوگوں کی اپنی عورتیں ہیں، کیونکہ نبی اپنی قوم کے لیے بمنزلہ باپ کے ہوتا ہے اور قوم کی ساری عورتیں نبی کی بیٹیاں ہوتی ہیں، جیسا کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے متعلق ارشاد ہے : ﴿ اَلنَّبِيُّ اَوْلٰى بِالْمُؤْمِنِيْنَ مِنْ اَنْفُسِهِمْ وَ اَزْوَاجُهٗۤ اُمَّهٰتُهُمْ ﴾ [ الأحزاب : ۶ ] ’’یہ نبی مومنوں پر ان کی جانوں سے زیادہ حق رکھنے والا ہے اور اس کی بیویاں ان کی مائیں ہیں۔‘‘ یہی تفسیر راجح ہے، گو بعض نے لوط علیہ السلام کی اپنی بیٹیاں بھی مراد لی ہیں کہ ان سے شادی کر لو۔ (کما فی الموضح) اس تفسیر کے راجح ہونے کی وجہ یہ بیان کی جاتی ہے کہ لوط علیہ السلام کی بیٹیاں معروف قول کے مطابق صرف دو تھیں، اگر کم و بیش بھی ہوں تو پوری قوم سے تو ان کی شادی نہیں ہو سکتی، اس لیے بیٹیوں سے مراد قوم کی بیٹیاں یعنی ان کی بیویاں ہیں۔ ایک قول یہ بھی ہے کہ مراد اپنی ہی بیٹیاں تھیں، مگر نہ انھیں ان کے حوالے کرنا مقصود تھا نہ ان کی ان سے شادی کرنا، بلکہ محض انھیں شرمندہ کرکے اپنے مہمانوں کی عزت بچانا مقصود تھا، کیونکہ وہ بھی جانتے تھے اور قوم بھی کہ اپنی بیٹیاں کوئی کسی کے حوالے نہیں کرتا۔ یہ صرف اپنی عاجزی کے اظہار اور انھیں شرمندہ کرنے کے لیے ہے، جیساکہ سلیمان علیہ السلام نے فیصلہ کیا تھا کہ لاؤ بچے کے دو ٹکڑے کرکے دونوں دعویدار عورتوں کو ایک ایک حصہ دے دیتے ہیں، حالانکہ ان کی مراد ہر گز یہ نہ تھی کہ واقعی بچے کو درمیان سے کاٹ دیاجائے، بلکہ وہ حقیقت اگلوانا چاہتے تھے۔ آیت کے ظاہر الفاظ سے یہ معنی مناسب معلوم ہوتا ہے۔ 4۔ ’’ هُنَّ اَطْهَرُ لَكُمْ ‘‘ کا مطلب یہ نہیں کہ مردوں سے یہ فعل بھی کچھ طہارت رکھتا ہے، مگر عورتیں زیادہ طاہر ہیں، بلکہ یہاں یہ بہت پاکیزہ کے معنوں میں ہے۔