قَالَتْ يَا وَيْلَتَىٰ أَأَلِدُ وَأَنَا عَجُوزٌ وَهَٰذَا بَعْلِي شَيْخًا ۖ إِنَّ هَٰذَا لَشَيْءٌ عَجِيبٌ
وہ بولی افسوس مجھ پر کیا ایسا ہوسکتا ہے کہ میرے اولاد ہو حالانکہ میں بڑھیا ہوگئی ہوں اور یہ میرا شوہر بھی بوڑھا ہوچکا ہے؟ یہ تو بڑی ہی عجیب بات ہے۔
1۔ قَالَتْ يٰوَيْلَتٰۤى: امام طبری رحمہ اللہ نے فرمایا کہ ’’يَا وَيْلَتَا ‘‘ کا کلمہ عرب کسی چیز پر تعجب اور اسے انوکھا سمجھنے کے وقت بولتے ہیں، چنانچہ تعجب کے وقت کہتے ہیں : ’’وَيْلُ أُمِّهِ مَا أَرْجَلَهُ ‘‘ ’’اس کی ماں ہلاک ہو، وہ کس قدر مرد ہے۔‘‘ باقی الف کے متعلق طبری کا فیصلہ یہ ہے کہ یہ الف ’’ندبہ‘‘ کا ہے اور تاء کا اضافہ اس لیے کیا گیا ہے کہ ’’وَيْلٌ‘‘ کے بعد والا الف ندبہ اتنا واضح اور لمبا نہیں ہو سکتا جتنا درمیان میں تاء کے اضافے سے ہو سکتا ہے۔ 2۔ ءَاَلِدُ وَ اَنَا عَجُوْزٌ ....: پہلی خوش خبری کا رد عمل وہ ہنسی تھی جو سارہ علیھا السلام کے چہرے پر نمودار ہوئی، اب ایک ایسی چیز کی خوش خبری ملی جو ساری زندگی کی آرزو کا خلاصہ تھی اور اس وقت ملی جب دنیاوی اسباب کے لحاظ سے اس کی امید ہی نہ تھی تو سارہ علیھا السلام کی ہنسی حیرت اور دہشت میں بدل گئی۔ کہا، کیا ایسا ہو گا کہ میرے ہاں بچہ ہو گا؟ جب کہ میں بڑھیا ہوں اور یہ میرا خاوند بھی بوڑھا ہے، یقیناً یہ تو ایک عجیب چیز ہے۔ یہ خوش خبری فرشتوں نے ابراہیم علیہ السلام کو بھی دی تھی، جیسا کہ سورۂ ذاریات میں ہے : ﴿ وَ بَشَّرُوْهُ بِغُلٰمٍ عَلِيْمٍ ﴾ [ الذاریات : ۲۸ ] ’’اور انھوں نے اسے (ابراہیم علیہ السلام ) کو ایک بہت علم والے لڑکے کی خوش خبری دی۔‘‘ مگر یہاں خصوصاً ان کی بیوی کو خوش خبری دینے اور ان سے گفتگو کا ذکر کیا ہے، کیونکہ ابراہیم علیہ السلام کے ہاں تو ہاجر علیھا السلام سے اسماعیل پیدا ہو چکے تھے، لیکن سارہ علیھا السلام ابھی تک بے اولاد تھیں۔ قدیم مفسرین اور اسرائیلی روایات سے معلوم ہوتا ہے کہ اس وقت ابراہیم علیہ السلام کی عمر سو سال اور سارہ علیھا السلام کی عمر نوے سال تھی، مگر حقیقت یہ ہے کہ ان دونوں کی عمر کے تعین کا کوئی بااعتماد ذریعہ ہمارے پاس نہیں۔ اللہ تعالیٰ کا بیان سارہ علیھا السلام کا ’’عَجُوْزٌ ‘‘ ہونا اور ان کے خاوند کا ’’ شَيْخًا ‘‘ ہونا ہی ’’لَشَيْءٌ عَجِيْبٌ ‘‘ سمجھنے کے لیے کافی ہے، ورنہ اللہ تعالیٰ ضرور ان کی عمر بھی بیان فرما دیتا۔ 3۔ یہ آیت دلیل ہے کہ ذبیح اسماعیل علیہ السلام تھے، کیونکہ اسحاق علیہ السلام کی خوش خبری کے ساتھ ہی یعقوب پوتے کی خوش خبری بھی تھی، ان کے ذبح کے حکم کا تو سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔ (قرطبی)