وَامْرَأَتُهُ قَائِمَةٌ فَضَحِكَتْ فَبَشَّرْنَاهَا بِإِسْحَاقَ وَمِن وَرَاءِ إِسْحَاقَ يَعْقُوبَ
اور اس کی بیوی (سارہ) بھی (خیمہ میں) کھڑی (سن رہی) تھی، وہ ہنس پڑی (یعنی اندیشہ کے دور ہوجانے سے خوش ہوگئی) پس ہم نے اسے (اپنے فرشتوں کے ذریعہ سے) اسحاق (کے پیدا ہونے) کی خوشخبری دی اور اس کی کہ اسحاق کے بعد یعقوب کا ظہور ہوگا۔
1۔ وَ امْرَاَتُهٗ قَآىِٕمَةٌ فَضَحِكَتْ : ان کی بیوی سارہ علیھا السلام مہمانوں کی خدمت کے لیے ساتھ ہی کھڑی تھی اور خوف زدہ تھی۔ جب اس نے یہ بات سنی تو ہنس پڑی، یا تو اس لیے کہ ہم انھیں ڈاکو سمجھے تھے یہ تو فرشتے نکلے، یا اس خوشی میں کہ ہم تو خوف زدہ تھے کہ اس طرح فرشتوں کی آمد خطرے سے خالی نہیں ہوتی (دیکھیے حجر : ۸) مگر یہ تو ہم پر عذاب کے بجائے ہمارے عزیز پیغمبر لوط علیہ السلام کی نافرمان قوم پر عذاب کی خوش خبری لے کر آئے ہیں اور دشمن کی ہلاکت کی خبر سے یقیناً خوشی ہوتی ہے۔ 2۔ فَبَشَّرْنٰهَا بِاِسْحٰقَ ....: سارہ علیھا السلام کے لیے ایک خوشی کی خبر وہ تھی جو اوپر گزری، جس پر وہ بے ساختہ ہنس پڑیں۔ فرشتوں نے انھیں مزید دو خوش خبریاں دیں، ایک بیٹا عطا ہونے کی، پھر اس بیٹے سے پوتا یعقوب عطا ہونے کی اور ان کے ضمن میں یہ خوش خبری تھی کہ تم دونوں میاں بیوی ابھی اتنی عمر اور پاؤ گے کہ بیٹا ملے گا، وہ جوان ہو گا، پھر اس کی شادی ہو گی اور اسے یعقوب عطا ہو گا، گویا مسلسل چار خوش خبریاں۔ یہ چاروں خوش خبریاں فرشتوں نے دی تھیں، مگر اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ ہم نے اسے یہ خوش خبریاں دیں، کیونکہ فرشتوں کا کام تو صرف پہنچانا تھا، اصل خوش خبری تو اللہ تعالیٰ کی طرف سے تھی جو کسی صورت غلط نہیں ہو سکتی۔