فَلَمَّا رَأَىٰ أَيْدِيَهُمْ لَا تَصِلُ إِلَيْهِ نَكِرَهُمْ وَأَوْجَسَ مِنْهُمْ خِيفَةً ۚ قَالُوا لَا تَخَفْ إِنَّا أُرْسِلْنَا إِلَىٰ قَوْمِ لُوطٍ
پھر جب اس نے دیکھا ان کے ہاتھ کھانے کی طرف بڑھتے نہیں تو ان سے بدگمان ہوا اور جی میں ڈرا (کہ یہ کیا بات ہے؟) انہوں نے کہا خوف نہ کر، ہم تو (اللہ کی طرف سے) قوم لوط کی طرف بھیجے گئے ہیں۔
1۔ فَلَمَّا رَاٰ اَيْدِيَهُمْ لَا تَصِلُ اِلَيْهِ نَكِرَهُمْ ....: ابراہیم علیہ السلام نے صرف کھانا پیش ہی نہیں کیا بلکہ انھیں کھانے کے لیے اصرار بھی کیا : ﴿قَالَ اَلَا تَاْكُلُوْنَ﴾ [ الذاریات : ۲۷ ] ’’فرمایا کیا تم کھاتے نہیں ہو؟‘‘ پھر بھی جب انھوں نے کھانے کی طرف ہاتھ نہیں بڑھایا تو دل میں ایک قسم کا خوف محسوس کیا۔ ’’خِيْفَةً ‘‘ کی تنوین کی وجہ سے ’’ایک قسم کا خوف‘‘ ترجمہ کیا گیا ہے۔ خوف کی وجہ یہ تھی کہ ان کے علاقے میں اگر کوئی اجنبی آتا اور وہ مہمانی میں پیش کیا ہوا کھانا قبول نہ کرتا تو اس کے متعلق سمجھا جاتا کہ وہ کسی برے ارادے سے آیا ہے، یا یہ بھی ہو سکتا ہے اور شاید یہی زیادہ موقع کے مناسب ہے کہ ابراہیم علیہ السلام اور ان کی بیوی نے ان کے کھانا تناول نہ کرنے کی وجہ سے ان کے فرشتے ہونے کو بھانپ لیا ہو اور وہ اس بنا پر ڈر گئے ہوں کہ یہ ان کی بستی پر عذاب کے لیے بھیجے گئے ہیں۔ (شوکانی) فرشتوں نے ان کے خوف کو بھانپ لیا، بلکہ سورۂ حجر (۵۲) میں ہے کہ ابراہیم علیہ السلام نے صاف کہہ دیا : ﴿ اِنَّا مِنْكُمْ وَ جِلُوْنَ﴾ ’’ہم توتم سے خوف زدہ ہیں۔‘‘ 2۔ قَالُوْا لَا تَخَفْ اِنَّا اُرْسِلْنَا اِلٰى قَوْمِ لُوْطٍ : فرشتوں نے کہا، آپ مت ڈریں، ہمیں (آپ کی بستی پر نہیں بلکہ) لوط علیہ السلام کی قوم پر عذاب کے لیے بھیجا گیا ہے۔ اس سے انبیائے کرام علیھم السلام کے عالم الغیب ہونے کی اور ان کے کائنات پر اختیار رکھنے کی صاف نفی ہو رہی ہے۔