وَأُتْبِعُوا فِي هَٰذِهِ الدُّنْيَا لَعْنَةً وَيَوْمَ الْقِيَامَةِ ۗ أَلَا إِنَّ عَادًا كَفَرُوا رَبَّهُمْ ۗ أَلَا بُعْدًا لِّعَادٍ قَوْمِ هُودٍ
اور ایسا ہوا کہ دنیا میں بھی ان کے پیچھے لعنت پڑی (یعنی رحمت الہی کی برکتوں سے محرومی ہوئی) اور قیامت کے دن بھی۔ تو سن رکھو کہ قوم عاد نے اپنے پروردگار کی ناشکری کی، اور سن رکھو کہ عاد کے لیے محرومی کا اعلان ہوا جو ہود کی قوم تھی۔
1۔ وَ اُتْبِعُوْا فِيْ هٰذِهِ الدُّنْيَا لَعْنَةً وَّ يَوْمَ الْقِيٰمَةِ: لعنت کا معنی ناراض ہو کر دفع دور کر دینا ہے۔ اللہ تعالیٰ کی لعنت سے مراد آخرت میں عذاب اور دنیا میں اپنی رحمت اور توفیق سے محروم کر دینا ہے اور انسان کی طرف سے لعنت کا مطلب اس کے لیے یہ بددعا کرنا ہے۔ (راغب) یعنی دنیا میں آنے والا ہر پیغمبر اور مومن ان کے کفر کی وجہ سے ان پر لعنت کرتا رہے گا اور آخرت میں وہ سب کے سامنے رسوا اور مبتلائے عذاب ہوں گے۔ 2۔ اَلَاۤ اِنَّ عَادًا كَفَرُوْا رَبَّهُمْ ....: ’’ اَلَا ‘‘ کے ساتھ خبردار اس لیے کیا کہ کوئی یہ نہ کہے کہ ان بے چاروں پر زیادتی ہوئی۔ فرمایا، سن لو! یہ لوگ تمام جرائم سے بڑے جرم رب تعالیٰ کے کفر کے مرتکب تھے۔ پھر دوبارہ فرمایا، سن لو! عاد کے لیے ہر قسم کی خیر اور اللہ کی رحمت سے دوری ہے، جو ہود علیہ السلام کی قوم تھے۔ یاد رہے کہ ’’ كَفَرَ‘‘ کے بعد عام طور پر باء آتی ہے، مثلاً ’’ كَفَرُوْا بِرَبِّهِمْ ‘‘ جس کا مطلب رب کی نعمتوں کی ناشکری اور انکار ہوتا ہے۔ باء کے بغیر ’’ كَفَرُوْا رَبَّهُمْ ‘‘ کا مطلب یہ ہے کہ قوم عاد نے سرے ہی سے اپنے رب کا انکار کر دیا، جیسے دہریے رب تعالیٰ کو نہیں مانتے۔ ’’ كَفَرُوْا رَبَّهُمْ ‘‘ ’’ كَفَرُوْا بِرَبِّهِمْ ‘‘ سے بھی بڑا جرم ہے۔ بعض مفسرین کے مطابق ’’ كَفَرُوْا رَبَّهُمْ ‘‘ میں یہ بھی ممکن ہے کہ ’’ كَفَرُوْا بِرَبِّهِمْ‘‘ میں سے تخفیف کے لیے باء حذف کر دی گئی ہو اور دونوں کا معنی ایک ہی ہو۔