وَلَمَّا جَاءَ أَمْرُنَا نَجَّيْنَا هُودًا وَالَّذِينَ آمَنُوا مَعَهُ بِرَحْمَةٍ مِّنَّا وَنَجَّيْنَاهُم مِّنْ عَذَابٍ غَلِيظٍ
اور (دیکھو) جب ہماری (ٹھہرائی ہوئی) بات کا وقت آ پہنچا تو ہم نے اپنی رحمت سے ہود کو بچا لیا اور ان لوگوں کو بھی بچا لیا جو اس کے ساتھ (سچائی پر) ایمان لائے تھے اور ایسے عذاب سے بچایا کہ بڑا ہی سخت عذاب تھا۔
وَ لَمَّا جَآءَ اَمْرُنَا نَجَّيْنَا هُوْدًا ....: ہمارے حکم سے مراد عذاب کا حکم ہے، اس کی تفصیل سورۂ احقاف، سورۂ حاقہ، سورۂ قمر اور دوسری سورتوں میں موجود ہے۔ اللہ تعالیٰ نے ان پر شدید ہوا کی تیز و تند اور سرکش آندھی بھیجی، جو ان پر سات راتیں اور آٹھ دن مسلسل چلی اور اس نے کفار میں سے ایک بھی متنفس کو باقی نہ چھوڑا۔ دیکھیے سورۂ حاقہ (۶ تا ۸) یہ تو دنیا کا عذاب تھا، آخرت میں ان کے لیے اس سے بھی سخت عذاب ’’عَذَابٍ غَلِيْظٍ ‘‘ تیار ہے۔ مگر اللہ تعالیٰ نے ہود علیہ السلام اور ان کے ہمراہ ایمان لانے والوں کو ان دونوں عذابوں سے بچا لیا۔ یہاں ایک سوال پیدا ہوتا ہے کہ اتنی خوف ناک آندھی جب چلتی ہے تو وہ مومن و کافر ہر ایک پر گزرتی ہے تو ہود علیہ السلام اور ان کے ساتھی کس طرح بچ گئے؟ اسی طرح ثمود پر آنے والی صیحہ (چیخ) سے کافروں کے کان اور دل تو پھٹ گئے مگر صالح علیہ السلام اور ایمان والوں کا کچھ بھی نہ بگڑا۔ اللہ تعالیٰ نے اس کا جواب دیا کہ ہم نے انھیں اپنی عظیم رحمت کے ساتھ بچا لیا۔ ’’ بِرَحْمَةٍ ‘‘ میں تنوین تعظیم کے لیے ہے، پھر جو رحمت اللہ کی طرف سے ہو اس کی عظمت کا کیا ٹھکانا ہے۔ وہ آندھی اور چیخ اللہ کے امر سے کفار پر آئی تھیں، ان کے ساتھ رہنے والے مسلمانوں پر اثر انداز ہونے کا انھیں حکم ہی نہ تھا۔ ا س لیے وہ اللہ تعالیٰ کی عظیم رحمت کے دامن میں محفوظ تھے۔ گروہ در گروہ پرندوں کی کنکریوں سے ابرہہ اور اس کا لشکر کھائے ہوئے بھس کی طرح ہو گیا، مگر مکہ والوں کا کچھ بھی نہ بگڑا۔ دراصل یہ حکم اس قادر مطلق کا تھا، اگر کسی دنیا والے کا ہوتا تو کافر و مومن دونوں پس جاتے، متنبی نے کہا ہے۔ تُسَوِّدُ الشَّمْسُ مِنَّا بِيْضَ اَوْجُهِنَا وَمَا تُسَوِّدُ بِيْضَ الْعَيْنِ وَاللِّمَمٖ وَكَانَ حَالُهُمَا فِي الْحُكْمِ وَاحِدَةً لَوِ احْتَكَمْنَا مِنَ الدُّنْيَا إِلٰي حَكَمٖ ’’دھوپ ہمارے چہروں کی سفیدی کو سیاہ کر دیتی ہے، جب کہ آنکھ کی سفیدی اور بالوں کی سفیدی کو سیاہ نہیں کرتی۔ حالانکہ اگر ہم دنیا کے کسی منصف کے پاس جائیں تو فیصلے میں دونوں کا حال ایک ہی ہے۔‘‘ بیماری کے بعد شفا بھی رحمت ہے، مگر بیماری آنے ہی نہ دینا یہ اس سے بھی عظیم رحمت ہے۔