إِنِّي تَوَكَّلْتُ عَلَى اللَّهِ رَبِّي وَرَبِّكُم ۚ مَّا مِن دَابَّةٍ إِلَّا هُوَ آخِذٌ بِنَاصِيَتِهَا ۚ إِنَّ رَبِّي عَلَىٰ صِرَاطٍ مُّسْتَقِيمٍ
میرا بھروسہ اللہ پر ہے جو میرا بھی پروردگار ہے اور تمہارا بھی، کوئی حرکت کرنے والی ہستی نہیں کہ اس کے قبضہ سے باہر ہو۔ (١) میرا پروردگار (حق و عدل کی) سیدھی راہ پر ہے (یعنی اس کی راہ ظلم کی راہ نہیں ہوسکتی)
1۔ اِنِّيْ تَوَكَّلْتُ عَلَى اللّٰهِ رَبِّيْ وَ رَبِّكُمْ : یہ جرأت ہود علیہ السلام میں کیسے پیدا ہوئی؟ وہ خود فرماتے ہیں کہ میرا بھروسا اللہ پر ہے، جو میرا رب ہے اور تمھارا رب ہے۔ 2۔ مَا مِنْ دَآبَّةٍ اِلَّا هُوَ اٰخِذٌۢ بِنَاصِيَتِهَا: ’’نَاصِيَةٌ ‘‘ پیشانی کے بالوں کو کہتے ہیں، اگر کسی کو یہاں سے اچھی طرح پکڑ لیا جائے تو وہ ہل نہیں سکتا، بلکہ پوری طرح پکڑنے والے کی گرفت میں ہوتا ہے، جیسا کہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا : ﴿ لَنَسْفَعًۢا بِالنَّاصِيَةِ ﴾ [ العلق : ۱۵ ] ’’تو ہم ضرور اسے پیشانی کے بالوں کے ساتھ گھسیٹیں گے۔‘‘ مجرموں کے متعلق فرمایا کہ وہ اپنی علامت کے ساتھ پہچانے جائیں گے : ﴿ فَيُؤْخَذُ بِالنَّوَاصِيْ وَ الْاَقْدَامِ ﴾ [ الرحمٰن : ۴۱ ] ’’پھر (ان کو) پیشانی کے بالوں اور قدموں سے پکڑا جائے گا۔‘‘ مقصد یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے شرعی عقیدے اور شرعی احکام میں تمھیں اختیار دیا ہے کہ مانو گے تو انعام پاؤ گے، نہ مانو گے تو مارے جاؤ گے۔ اس پر تم اکڑ گئے اور اپنے آپ کو ہر طرح مرضی کا مالک سمجھ لیا۔ سب سے پہلے تو شرعی احکام پر عمل میں اختیار دینے والے مالک کی غداری کرکے اس کی مخلوق کو اس کے شریک بنا بیٹھے، پھر اس کے احکام کی کھلم کھلا خلاف ورزی کی، اس کے رسول کو جھٹلایا، یہ نہ سوچا کہ تھوڑا سا اختیار رکھنے کے باوجود صرف تم ہی نہیں بلکہ پوری مخلوق مکمل طور پر اس کی گرفت میں ہے اور اس کی پیشانی کے بال اس نے پکڑ رکھے ہیں، وہ اس کی مرضی کے بغیر ہل بھی نہیں سکتے۔ اب تم جس طرح شرعی احکام میں اپنا اختیار غلط استعمال کرتے ہوئے اکڑ کر کہتے ہو، ہم اللہ کو نہیں مانتے، ہمارا داتا فلاں اور دستگیر فلاں ہے، ہم رسول کو نہیں مانتے، ہمارا سائیں مرشد فلاں ہے، اگر واقعی تم ایسے ہی آزاد ہو تو ان احکام پر بھی اکڑ کر دکھاؤ جن میں وہ ’’كُنْ‘‘ کہتا ہے تو وہ فوراً واقع ہو جاتے ہیں۔ جب بیمار ہوتے ہو تو یہ کہہ کر دکھاؤ کہ کوئی ہمیں بیمار نہیں کر سکتا، کوئی ہمیں بوڑھا نہیں کر سکتا، کوئی ہمارے بال سفید نہیں کر سکتا۔ اگر تم اور تمھارے خدا ایسے ہی زبردست ہیں تو اللہ کے حکم سے دل کی حرکت رکنے پر اسے چالو کر کے دکھاؤ۔ اسی طرح موت کے وقت بھی اکڑ جاؤ کہ جاؤ ہم نہیں مرتے۔ یا تمھارے شریک کہیں ہم اپنے بندے کو مرنے نہیں دیں گے۔ معلوم ہوا کہ تم اس تھوڑے سے اختیار کے باوجود مکمل طور پر میرے رب کے مکمل قبضے میں ہو، پھر جب خود اس نے مجھے بھیجا ہے اور وہ میرا پشت پناہ ہے اور اسی پر میرا بھروسا ہے، تو مجھے تمھارا کیا ڈر ہے، جاؤ جو مرضی کر لو۔ 3۔ اِنَّ رَبِّيْ عَلٰى صِرَاطٍ مُّسْتَقِيْمٍ: اس کا ایک معنی تو یہ ہے کہ ’’جو سیدھی راہ پر چلے وہ اس سے ملے۔‘‘ (موضح) سورۂ نحل میں فرمایا : ﴿ وَ عَلَى اللّٰهِ قَصْدُ السَّبِيْلِ وَ مِنْهَا جَآىِٕرٌ ﴾ [ النحل : ۹ ] ’’اور سیدھا راستہ اللہ ہی پر (جا پہنچتا ہے) اور ان میں سے کچھ (راستے) ٹیڑھے ہیں۔‘‘ دوسرا یہ کہ اگرچہ ہر جاندار پر اس کا قبضہ ہے اور وہ اس کے ساتھ جو سلوک کرنا چاہے کر سکتا ہے، مگر وہ صراط مستقیم پر ہے، کسی پر ظلم نہیں کرتا۔ (ابن کثیر)