وَنَادَىٰ نُوحٌ رَّبَّهُ فَقَالَ رَبِّ إِنَّ ابْنِي مِنْ أَهْلِي وَإِنَّ وَعْدَكَ الْحَقُّ وَأَنتَ أَحْكَمُ الْحَاكِمِينَ
اور نوح نے اپنے پروردگار سے دعا کی، اس نے کہا خدایا ! میرا بیٹا تو میرے گھر کے لوگوں میں سے ہے، اور یقینا تیرا وعدہ سچا ہے، تجھ سے بہتر فیصلہ کرنے والا کوئی نہیں۔
وَ نَادٰى نُوْحٌ رَّبَّهٗ ....: تمام کفار کے غرق ہونے کے بعد باپ کی شفقت نے جوش مارا تو نوح علیہ السلام نے بیٹے کے بارے میں دعا کی۔ اللہ تعالیٰ کا وعدہ نوح علیہ السلام کے اہل کو بچانے کا تھا، اس وعدے کے حوالے سے درخواست کی۔ وہ اہل سے نسبی اور رشتہ داری کے گھر والے سمجھ بیٹھے، جب کہ کافر اور مومن کے درمیان دوستی کا رشتہ باقی نہیں رہتا۔ ایمان لانے کے بعد سب مومن دوست اور سب کافر دشمن بن جاتے ہیں۔ دیکھیے سورۂ ممتحنہ (۴) بہرحال نوح علیہ السلام نے ادب ملحوظ رکھا اور صریح الفاظ میں بیٹے کو بچانے کی بات نہیں کی۔