قَالَ سَآوِي إِلَىٰ جَبَلٍ يَعْصِمُنِي مِنَ الْمَاءِ ۚ قَالَ لَا عَاصِمَ الْيَوْمَ مِنْ أَمْرِ اللَّهِ إِلَّا مَن رَّحِمَ ۚ وَحَالَ بَيْنَهُمَا الْمَوْجُ فَكَانَ مِنَ الْمُغْرَقِينَ
اس نے کہا میں کسی پہاڑ پر پناہ لے لوں گا، وہ مجھے پانی کی زد سے بچا لے گا، نوح نے کہا، (تو کس خیال خام میں پڑا ہے؟) آج اللہ کی (ٹھہرائی ہوئی) بات سے بچانے والا کوئی نہیں مگر ہاں وہی جس پر رحم کرے اور (دیکھو) دونوں کے درمیان ایک موج حائل ہوگئی۔ پس وہ انہی میں ہوا جو ڈوبنے والے تھے۔
1۔ قَالَ سَاٰوِيْۤ اِلٰى جَبَلٍ يَّعْصِمُنِيْ مِنَ الْمَآءِ : معلوم ہوا کہ مشرک کی نظر اسباب تک ہی رہتی ہے اور مشکل سے مشکل وقت میں بھی اسباب کے پیدا کرنے والے کی طرف نہیں جاتی۔ ’’مجھے پہاڑ پانی سے بچا لے گا‘‘ کم عقل ایک بے اختیار پہاڑ کو بچانے والا سمجھ رہا ہے۔ 2۔ قَالَ لَا عَاصِمَ الْيَوْمَ مِنْ اَمْرِ اللّٰهِ اِلَّا مَنْ رَّحِمَ : اس کا جو ترجمہ لکھا گیا ہے اس میں کچھ الفاظ محذوف شامل کیے جائیں تو مطلب درست ہوتا ہے، یعنی ’’آج اللہ کے فیصلے سے کوئی بچانے والا نہیں مگر جس پر وہ رحم کرے (وہی بچے گا)۔‘‘ بعض حضرات نے فرمایا کہ فاعل کا وزن بعض اوقات نسبت کے معنی میں بھی آتا ہے، جیسا کہ’’لَابِنٌ‘‘ لبن(دودھ) والا اور ’’تَامِرٌ ‘‘ تمر(کھجور) والا، اسی طرح یہاں ’’عَاصِمَ ‘‘ نسبت کے معنی میں استعمال ہوا ہے، یعنی آج بچاؤ رکھنے والا کوئی نہیں، مگر جس پر وہ (اللہ) رحم کرے۔ ہمارے استاذ شیخ محمد عبدہ رحمہ اللہ لکھتے ہیں : ’’یا دوسرا ترجمہ یہ ہو سکتا ہے کہ آج اللہ کے عذاب سے کوئی بچانے والا نہیں ہے، مگر جو رحم کرنے والا ہے (یعنی خود اللہ تعالیٰ)۔‘‘ آیت میں یہ ایک وجہ ہے جو محققین نے ذکر کی ہے اور یہی اقویٰ (زیادہ مضبوط) ہے، کیونکہ فاعل کا صیغہ زیادہ تر صفت کے لیے آتا ہے، نسبت کے لیے کم استعمال ہوتا ہے۔ (روح المعانی) 3۔ وَ حَالَ بَيْنَهُمَا الْمَوْجُ فَكَانَ مِنَ الْمُغْرَقِيْنَ : نوح علیہ السلام اور ان کے بیٹے کی بات جاری تھی کہ پانی کی موج دونوں کے درمیان حائل ہو گئی اور وہ اپنے ساتھیوں سے جا ملا، جو غرق کیے جا چکے تھے۔ اس سے ایک تو اس موج کی غیرت ایمانی ظاہر ہو رہی ہے کہ وہ موحد باپ کے سامنے مشرک بیٹے کی بک بک کو زیادہ دیر تک برداشت نہ کر سکی، دوسرا یہ کہ آخرت میں آدمی انھی کا ساتھی ہو گا جن کا وہ دنیا میں ساتھی تھا۔ ’’فَغَرِقَ ‘‘ (پس وہ غرق ہو گیا) اور ’’فَكَانَ مِنَ الْمُغْرَقِيْنَ ‘‘ (پس وہ غرق کیے گئے لوگوں میں سے ہو گیا) دونوں میں یہی فرق ہے، اس لیے اپنے بچوں کو جس قدر ہو سکے بری صحبت سے محفوظ رکھنا چاہیے۔