وَاصْنَعِ الْفُلْكَ بِأَعْيُنِنَا وَوَحْيِنَا وَلَا تُخَاطِبْنِي فِي الَّذِينَ ظَلَمُوا ۚ إِنَّهُم مُّغْرَقُونَ
اور (کہا گیا کہ) ہماری نگرانی میں اور ہمارے حکم کے مطابق ایک کشتی بنانا شروع کردے اور ان ظالموں کے بارے میں اب ہم سے کچھ عرص معروض نہ کر، یقینا یہ لوگ غرق ہوجانے والے ہیں۔
1۔ وَ اصْنَعِ الْفُلْكَ بِاَعْيُنِنَا وَ وَحْيِنَا : نوح علیہ السلام کی دعا قبول ہوئی اور اللہ تعالیٰ نے کفار پر عذاب کے وعدے کے ساتھ نوح علیہ السلام کو دو باتوں کی تاکید فرمائی، پہلی تو یہ کہ پانی کے طوفان سے بچنے کے لیے ہماری آنکھوں کے سامنے اور ہماری وحی کے مطابق ایک بحری جہاز بناؤ۔ یاد رہے کہ’’الْفُلْكَ ‘‘ کا لفظ بڑی کشتی (بحری جہاز) کے لیے استعمال ہوتا ہے اور واحد و جمع اور مذکر و مؤنث سبھی کے لیے ایک ہی لفظ ہے۔ اللہ تعالیٰ کی نگرانی میں اور اس کی ہدایت کے مطابق بننے والی کشتی کتنی شان دار ہو گی، اس کا اندازہ نہیں ہو سکتا۔ بعض لوگوں نے اس کی لمبائی، چوڑائی اور اونچائی بیان کی ہے، مگر ان تمام باتوں کی کوئی پختہ دلیل نہیں ہے۔ دوسری بات یہ کہ جب تم نے خود ہی دعا کی ہے کہ یا اللہ! زمین پر رہنے والا ایک کافر بھی باقی نہ چھوڑ، تو اب عذاب آنے پر ظلم کرنے والوں (مشرکوں) کے بارے میں مجھ سے کوئی بات (سفارش) مت کرنا، کیونکہ ان کے غرق کیے جانے کا فیصلہ ہو چکا ہے۔ 2۔ بِاَعْيُنِنَا وَ وَحْيِنَا : معلوم ہوا کہ اللہ تعالیٰ کے لیے آنکھوں کا لفظ استعمال ہو سکتا ہے اور اللہ تعالیٰ کی صفات میں سے اس کی آنکھیں بھی ہیں۔ دوسری جگہ موسیٰ علیہ السلام کے متعلق فرمایا : ﴿ وَ لِتُصْنَعَ عَلٰى عَيْنِيْ ﴾ [ طٰہٰ : ۳۹ ] ’’اور تاکہ تیری پرورش میری آنکھوں کے سامنے کی جائے۔‘‘ بعض لوگ اللہ تعالیٰ کے لیے آنکھیں ہونے سے انکار کرتے ہیں، ان کے خیال میں اللہ تعالیٰ کی آنکھیں ماننے سے مخلوق کے ساتھ تشبیہ لازم آتی ہے، یعنی وہ ہمارے جیسا بن جاتا ہے، کیونکہ ہماری بھی آنکھیں ہیں، جبکہ اللہ تعالیٰ کی مثل کوئی چیز نہیں۔ ان حضرات نے اسی بہانے سے اللہ تعالیٰ کی بے شمار صفات کا انکار کر دیا اور کئی ایک کی تاویل کر دی، مثلاً اللہ تعالیٰ کے چہرے، ہاتھ، پنڈلی، کان اور آنکھ کا، اس کے اترنے، چڑھنے، سننے، بولنے، دیکھنے، خوش ہونے اور ناراض ہونے کا انکار کر دیا، یا اپنے پاس سے کوئی اور مطلب بیان کر دیا، یا کہا کہ ہمیں معلوم ہی نہیں اس کا معنی کیا ہے۔ ان بے چاروں نے غور نہیں کیا کہ جب آپ قرآن مجید میں اللہ تعالیٰ کے لیے ’’عَيْنٌ‘‘ کا لفظ بول رہے ہیں تو اردو میں آنکھ کہنے سے آپ کو کیا پریشانی ہے۔ بعض حضرات نے اس کا ترجمہ کیا ’’ہماری نگرانی میں کشتی بنا۔‘‘ چلیے یہ بھی درست ہے، مگر اس کے لیے آنکھوں کے انکار کی ضرورت نہیں، بلکہ وہ نگرانی بھی آنکھوں کے ساتھ ہی تھی۔ ’’بِاَعْيُنِنَا ‘‘ کا ترجمہ نگرانی کریں، پھر بھی مشابہت والا اعتراض ختم نہیں ہوتا، کیونکہ انسان نگرانی بھی کرتا ہے، یہ بھی مشابہت ہو گئی۔ ان کو چاہیے تھا کہ جو کچھ اللہ تعالیٰ نے فرمایا، اس پر ایمان رکھتے اور اس مشکل کا حل جو اللہ تعالیٰ نے خود فرمایا ہے، اس کو تسلیم کرتے۔ چنانچہ اللہ تعالیٰ نے خود فرمایا ہے : ﴿ لَيْسَ كَمِثْلِهٖ شَيْءٌ وَ هُوَ السَّمِيْعُ الْبَصِيْرُ ﴾ [ الشوریٰ : ۱۱ ] ’’اس کی مثل کوئی چیز نہیں اور وہی سب کچھ سننے والا، سب کچھ دیکھنے والا ہے۔‘‘ ’’اس کی مثل کوئی چیز نہیں‘‘ کے باوجود وہ سنتا بھی ہے، دیکھتا بھی، سمع و بصر بھی رکھتا ہے، مگر اس کا سننا، دیکھنا، ہنسنا، غصے ہونا، اترنا، چڑھنا، بولنا، اس کے کان، آنکھیں اور پنڈلی سب کچھ ہونے کے باوجود کوئی چیز مخلوق جیسی نہیں۔ اگر ہم اس حد تک چلے جائیں کہ مخلوق پر بولا جانے والا کوئی لفظ اللہ تعالیٰ پر بولا جا ہی نہیں سکتا، تو پھر ہم اپنے اللہ تعالیٰ ہی کو گم کر بیٹھیں گے۔ کیونکہ ہم زندہ ہیں، موجود ہیں، علم رکھتے ہیں، اب اللہ تعالیٰ کے حق میں اس کا انکار کرکے دیکھو تو نتیجہ یہ نکلے گا کہ اللہ تعالیٰ موجود ہی نہیں۔ ایسے خبیث عقیدے سے اللہ کی پناہ۔ یقیناً ہم زندہ و موجود ہیں اور اللہ تعالیٰ بھی زندہ و موجود ہے، مگر ہماری زندگی اور وجود اللہ تعالیٰ کی زندگی اور وجود سے کوئی مشابہت نہیں رکھتے۔ اس کی زندگی اور وجود اس کی شان کے لائق ہے، جو ازلی، ابدی اور لامحدود ہے۔ وہ کسی کا محتاج نہیں اور ہمارا وجود اور زندگی فانی، محدود اور اللہ کے محتاج ہیں۔ یہ لوگ عجیب باتیں کرتے ہیں، کبھی کہتے ہیں اللہ تعالیٰ نہ اوپر ہے نہ نیچے، نہ عرش پر ہے نہ آسمان دنیا پر اترتا ہے اور نہ قیامت کے دن آئے گا، تو پھر وہ کہاں ہے؟ کہتے ہیں، یہ پوچھنا ہی منع ہے، وہ نہ مکان میں ہے نہ لا مکان میں۔ پھر کبھی کہتے ہیں، وہ ہر جگہ ہے، کبھی کہتے ہیں، کہیں بھی نہیں۔ اللہ کے بندو! جو کچھ تعارف اللہ تعالیٰ نے اپنا خود کروایا ہے وہ ہر صورت مانو، مگر یہ کہو کہ اس کی آنکھیں، کان، چہرہ، اترنا اور چڑھنا وغیرہ سب کچھ ہے مگر مخلوق میں سے کسی کی طرح نہیں، بلکہ وہ اسی طرح ہے جیسے اس کی شان کے لائق ہیں۔ دراصل یہ لوگ اللہ کی صفات پر ایمان لانے سے اس لیے محروم ہوئے کہ انھوں نے اس کے چہرے، آنکھوں، ہاتھوں اور سننے و دیکھنے وغیرہ کو اپنے جیسا سمجھا، اس لیے انکار کر دیا۔ اگر وہ اس حقیقت کو سمجھ لیتے اور اس پر ایمان رکھتے کہ اللہ تعالیٰ نے اپنے متعلق جو جو الفاظ بولے ہیں، سب حق ہیں، مگر مخلوق میں سے کسی کے مشابہ نہیں تو وہ ایمان سے ہاتھ نہ دھوتے۔ 3۔ وَ لَا تُخَاطِبْنِيْ فِي الَّذِيْنَ ظَلَمُوْا ....: ’’الَّذِيْنَ ظَلَمُوْا ‘‘ سے مراد مشرک ہیں، کیونکہ شرک سے بڑی ناانصافی کوئی نہیں۔ نوح علیہ السلام کی بیوی اور ایک بیٹا مشرک تھے۔ اللہ تعالیٰ نے پہلے ہی ان کے حق میں کسی بھی قسم کی بات کرنے سے منع فرما دیا، کیونکہ مشرک کی نجات کی کوئی صورت نہیں۔