أَمْ يَقُولُونَ افْتَرَاهُ ۖ قُلْ إِنِ افْتَرَيْتُهُ فَعَلَيَّ إِجْرَامِي وَأَنَا بَرِيءٌ مِّمَّا تُجْرِمُونَ
(حکم اللہ ہوا، اے نوح) کیا یہ لوگ کہتے ہیں اس آدمی نے (یعنی نوح نے) اپنے جی سے یہ بات گھڑ لی ہے؟ تو کہہ دے اگر میں نے یہ بات گھڑ لی ہے تو میرا جرم مجھ پر اور تم جو جرم کر رہے ہو (اس کی پاداش تمہارے لیے میں اس سے بری الذمہ ہوں۔
اَمْ يَقُوْلُوْنَ افْتَرٰىهُ قُلْ اِنِ افْتَرَيْتُهٗ ....: اس آیت کی مفسرین نے الگ الگ تفسیریں کی ہیں۔ بعض نے اسے نوح علیہ السلام کے قصے ہی سے متعلق سمجھتے ہوئے اس میں خطاب نوح علیہ السلام سے قرار دیا ہے اور بعض نے اسے نوح علیہ السلام کے قصے کے درمیان جملہ معترضہ قرار دیا ہے اور اسے مشرکین مکہ کا قول قرار دے کر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے خطاب قرار دیا ہے، یعنی کیا (مکہ کے کافر) کہتے ہیں کہ اس (محمد صلی اللہ علیہ وسلم ) نے اس (قرآن) کو اپنے دل سے گھڑ لیا ہے۔ (اے محمد!) کہہ دے اگر میں نے اسے اپنے دل سے گھڑا ہے تو میرے گناہ کا وبال مجھ پر پڑے گا اور تم جو گناہ کرتے ہو میں اس کی ذمہ داری سے بری ہوں۔ علمائے تفسیر میں سے رازی اور ان کی موافقت میں شوکانی نے پہلے قول کو ترجیح دی ہے اور لکھا ہے کہ یہی اکثر مفسرین کا قول ہے۔ حافظ ابن کثیر اور صاحب کشاف نے دوسری تفسیر کو راجح قرار دیا ہے، یہی رائے شاہ عبد القادر رحمہ اللہ کی ہے، امکان دونوں کا ہے۔