قَالَ يَا قَوْمِ أَرَأَيْتُمْ إِن كُنتُ عَلَىٰ بَيِّنَةٍ مِّن رَّبِّي وَآتَانِي رَحْمَةً مِّنْ عِندِهِ فَعُمِّيَتْ عَلَيْكُمْ أَنُلْزِمُكُمُوهَا وَأَنتُمْ لَهَا كَارِهُونَ
نوح نے کہا اے میری قوم کے لوگو ! تم نے اس بات پر بھی غور کیا کہ اگر میں اپنے پروردگار کی طرف سے ایک دلیل روشن پر ہوں اور اس نے اپنے حضور سے ایک رحمت بھی مجھے بخشی دی ہو (یعنی راہ حق دکھا دی ہو) مگر وہ تمہیں دکھائی نہ دے تو (میں اس کے سوا کیا کرسکتا ہوں جو کر رہا ہوں؟) کیا ہم جبرا تمہیں راہ دکھا دیں حالانکہ تم اس سے بے زار ہو؟
1۔ قَالَ يٰقَوْمِ اَرَءَيْتُمْ اِنْ كُنْتُ عَلٰى بَيِّنَةٍ مِّنْ رَّبِّيْ ....: نوح علیہ السلام نے ان کے تمام اعتراضات کا جامع جواب دیا، ایک تو یہ کہ میرے پاس میرے رب کی طرف سے اللہ تعالیٰ کی توحید اور اپنی رسالت کے مضبوط دلائل اور پختہ یقین موجود ہے، یعنی ’’ وَ اٰتٰىنِيْ رَحْمَةً مِّنْ عِنْدِهٖ ‘‘ دوسرا یہ کہ یہ نبوت کسی کی محنت کا نتیجہ یا کسی کے آبا و اجداد کی جائداد نہیں، یہ تو محض اللہ تعالیٰ کی اپنے پاس سے خاص عنایت ہے، اس کی تقسیم تمھارے ہاتھ میں نہیں۔ یہ اللہ جسے چاہے دیتا ہے، خواہ وہ غریب ہو یا امیر، جیسا کہ مکہ والوں نے ہمارے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم پر اعتراض کیا تھا : ﴿وَ قَالُوْا لَوْ لَا نُزِّلَ هٰذَا الْقُرْاٰنُ عَلٰى رَجُلٍ مِّنَ الْقَرْيَتَيْنِ عَظِيْمٍ﴾ [الزخرف : ۳۱ ] ’’اور انھوں نے کہا کہ یہ قرآن ان دو بستیوں (مکہ اور طائف) میں سے کسی بڑے آدمی پر کیوں نازل نہ کیا گیا؟‘‘ اللہ تعالیٰ نے ان کا جواب دیا : ﴿ اَهُمْ يَقْسِمُوْنَ رَحْمَتَ رَبِّكَ نَحْنُ قَسَمْنَا بَيْنَهُمْ مَّعِيْشَتَهُمْ فِي الْحَيٰوةِ الدُّنْيَا ﴾ [ الزخرف : ۳۲] ’’کیا وہ تیرے رب کی رحمت تقسیم کرتے ہیں؟ ہم نے خود ان کے درمیان ان کی معیشت دنیا کی زندگی میں تقسیم کی۔‘‘ 2۔ فَعُمِّيَتْ عَلَيْكُمْ: اس کا مادہ ’’عَمْيٌ‘‘ ہے، اندھا ہونا، یعنی یہ بتاؤ کہ اگر تمھیں اس دلیل اور رحمت سے اندھا رکھا گیا ہو اور تمھاری بے وقوفی کی وجہ سے وہ تم پر ایسی مخفی رہی ہو کہ تم دیکھ ہی نہ سکے ہو تو اس میں ہمارا کیا قصور ہے ؟ 3۔ اَنُلْزِمُكُمُوْهَا وَ اَنْتُمْ لَهَا كٰرِهُوْنَ: یعنی کیا ہم زبردستی تمھیں اس دلیل کا قائل کر لیں اور اس رحمت کے سائے میں دھکے سے داخل کر لیں، جب کہ تم اس سے نفرت کرتے ہو اور دور بھاگتے ہو۔ ’’اَنُلْزِمُكُمُوْهَا ‘‘ میں ایک لفظ کے اندر تین ضمیروں کو ایسے طریقے سے جمع کیا ہے کہ لفظ انتہائی خوبصورت اور واضح ہو گیا ہے۔