فَقَالَ الْمَلَأُ الَّذِينَ كَفَرُوا مِن قَوْمِهِ مَا نَرَاكَ إِلَّا بَشَرًا مِّثْلَنَا وَمَا نَرَاكَ اتَّبَعَكَ إِلَّا الَّذِينَ هُمْ أَرَاذِلُنَا بَادِيَ الرَّأْيِ وَمَا نَرَىٰ لَكُمْ عَلَيْنَا مِن فَضْلٍ بَلْ نَظُنُّكُمْ كَاذِبِينَ
اس پر قوم کے ان سرداروں نے جنہوں نے کفر کی راہ اختیار کی تھی کہا ہم تو تم میں اس کے سوا کوئی بات نہیں دیکھتے کہ ہماری ہی طرح کے ایک اادمی ہو اور جو لوگ تمہارے پیچھے چلے ہیں ان میں ان ان لوگوں کے سوا کوئی دکھائی نہیں دیتا جو ہم میں کمینے ہیں اور بے سوچے سمجھے تمہارے پیچھے ہو لیے ہیں۔ ہم تو تم لوگوں میں اپنے سے کوئی برتری نہیں پاتے۔ بلکہ سمجھتے ہیں تم جھوٹے ہو۔
1۔ فَقَالَ الْمَلَاُ الَّذِيْنَ كَفَرُوْا مِنْ قَوْمِهٖ: آلوسی نے فرمایا : ’’الْمَلَاُ ‘‘ کا لفظ اسم جمع ہے، جیسا کہ ’’رَهْطٌ‘‘ (گروہ) ہے۔ اس لفظ سے اس کا واحد کوئی نہیں آتا۔ ’’مَلَأَ يَمْلَأُ ‘‘ کا معنی بھرنا ہے، یعنی ایک رائے پر متفق لوگوں کی جماعت، جس کے رعب و جلال اور ظاہری شکل و صورت سے آنکھیں بھر رہی ہوں۔ (راغب) 2۔ مَا نَرٰىكَ اِلَّا بَشَرًا مِّثْلَنَا : نوح علیہ السلام اور دوسرے پیغمبروں کی امتوں کے کافروں کی طرح مکہ کے کافر بھی ہمارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے بارے میں یہی بات کہا کرتے تھے کہ جو شخص ہماری طرح کا بشر ہو، جو کھاتا پیتا، بازاروں میں چلتا پھرتا، سوتا جاگتا، بیویاں اور بال بچے رکھتا ہو، آخر وہ اللہ کا رسول کیسے ہو سکتا ہے۔ (دیکھیے فرقان : ۷) مطلب یہ ہے کہ رسالت اور بشریت میں تضاد ہے اور ان دونوں کا ایک شخص میں جمع ہونا ناممکن ہے، حالانکہ تمام انبیاء میں دونوں اوصاف جمع تھے، جیسا کہ فرمایا : ﴿ قُلْ سُبْحَانَ رَبِّيْ هَلْ كُنْتُ اِلَّا بَشَرًا رَّسُوْلًا ﴾ [ بنی إسرائیل : ۹۳ ] ’’تو کہہ میرا رب پاک ہے، میں تو ایک بشر کے سو اکچھ نہیں جو رسول ہے۔‘‘ اور دیکھیے سورۂ فرقان (۲۰) اور مومنون (۳۳، ۳۴) کفار آپ کا بشر ہونا جانتے تھے، کیونکہ آپ انھی میں پیدا ہوئے تھے، اس لیے انھوں نے آپ کو رسول ماننے سے انکار کر دیا۔ افسوس کہ کچھ جدی پشتی مسلمان باپ دادا سے سن کر آپ کو رسول مانتے ہیں، مگر آپ کے بشر ہونے سے انکار کرتے ہیں۔ درحقیقت یہ ایک ہی ذہن ہے کہ انسان رسول نہیں ہو سکتا۔ 3۔ وَ مَا نَرٰىكَ اتَّبَعَكَ ....: ’’اَرَاذِلُ‘‘ ’’اَرْذَلُ‘‘ کی جمع ہے، یعنی کم تر درجے کے لوگ۔ ’’ بَادِيَ ‘‘ ’’بَدَا يَبْدُوْ ‘‘ (ظاہر ہونا) سے اسم فاعل ہو تو معنی ہو گا ظاہر دیکھنے میں اور ’’بَدَءَ يَبْدَءُ‘‘ (شروع ہونا) سے ہو تو معنی ہو گا پہلی نظر میں، یعنی اس وجہ سے بھی ہم آپ کی پیروی اختیار نہیں کر سکتے کہ کچھ لوگ جو آپ کے متبع ہو گئے ہیں وہ تو دیکھنے ہی سے نظر آتے ہیں کہ ہمارے رذالے یعنی کم تر درجے کے لوگ ہیں۔ گویا ان کی نظر میں اس شخص کے تابع ہونا، جس کے پیروکار معاشرے میں نچلے درجے کے لوگ ہوں، ان کی شان کے منافی ہے۔ (دیکھیے شعراء : ۱۱۱) بعینہٖ یہی بات مکہ کے کھاتے پیتے لوگ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے بارے میں کہا کرتے تھے کہ ان کی پیروی ہماری قوم کے غلام اور نچلے طبقے کے لوگ کرتے ہیں۔ ( دیکھیے انعام : ۵۲ تا ۵۴) حالانکہ حق کی تاریخ سے ثابت ہے کہ اس کے ابتدائی پیروکار دنیوی لحاظ سے کمزور لوگ ہی ہوئے ہیں، جیسا کہ صحیح بخاری میں ہرقل اور ابوسفیان کے سوال و جواب میں مذکور ہے کہ جب ابوسفیان نے بتایا کہ اس کی پیروی ضعفاء نے کی ہے تو ہرقل نے کہا، یہی لوگ تمام رسولوں کے پیروی کرنے والے رہے ہیں۔ [ بخاری، بدء الوحی، باب کیف کان بدء الوحی ....: ۷ ] 4۔ وَ مَا نَرٰى لَكُمْ عَلَيْنَا مِنْ فَضْلٍ: ’’ہم تمھارے لیے اپنے آپ پر کوئی برتری نہیں دیکھتے‘‘ قوم کا یہ خطاب نوح علیہ السلام اور ان کے پیروکاروں سے ہے کہ کسی بھی چیز میں تم ہم سے بڑھ کر نہیں ہو۔ 5۔ بَلْ نَظُنُّكُمْ كٰذِبِيْنَ: یعنی اس بات میں کہ تم کہتے ہو نوح علیہ السلام اللہ کے رسول ہیں۔