مَن كَانَ يُرِيدُ الْحَيَاةَ الدُّنْيَا وَزِينَتَهَا نُوَفِّ إِلَيْهِمْ أَعْمَالَهُمْ فِيهَا وَهُمْ فِيهَا لَا يُبْخَسُونَ
جو کوئی (صرف) دنیا کی زندگی اور اس کی دلفریبیاں ہی چاہتا ہے تو (ہمارا ٹھہرایا ہوا قانون یہ ہے کہ) اس کی کوشش و عمل کے تنائج یہاں پورے پورے دے دیتے ہیں، ایسا نہیں ہوتا کہ دنیا میں اس کے ساتھ کمی کی جائے۔
مَنْ كَانَ يُرِيْدُ الْحَيٰوةَ الدُّنْيَا وَ زِيْنَتَهَا....: یہ دو آیات کفار اور مشرکین کے بارے میں ہیں، کیونکہ دوسری آیت میں ہے : ﴿ لَيْسَ لَهُمْ فِي الْاٰخِرَةِ اِلَّا النَّارُ ﴾ ’’ان کے لیے آخرت میں آگ کے سوا کچھ نہیں۔‘‘ مطلب یہ ہے کہ جو کفار یہاں دنیا طلبی کے لیے صدقہ و خیرات وغیرہ اور نیک عمل کرتے ہیں، جن کا تعلق رفاہ عامہ سے ہے، انھیں ان کاموں کا بدلہ دنیا ہی میں پورا پورا دے دیا جاتا ہے، لیکن یہ بدلہ ملنا اللہ تعالیٰ کی مرضی پر موقوف ہے، جیسا کہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا : ﴿ مَنْ كَانَ يُرِيْدُ الْعَاجِلَةَ عَجَّلْنَا لَهٗ فِيْهَا مَا نَشَآءُ لِمَنْ نُّرِيْدُ ثُمَّ جَعَلْنَا لَهٗ جَهَنَّمَ١ۚ يَصْلٰىهَا مَذْمُوْمًا مَّدْحُوْرًا ﴾ [ بنی إسرائیل : ۱۸ ] ’’جو شخص اس جلدی والی (دنیا) کا ارادہ رکھتا ہو ہم اس کو اس میں جلدی دے دیں گے جو چاہیں گے، جس کے لیے چاہیں گے، پھر ہم نے اس کے لیے جہنم بنا رکھی ہے، اس میں داخل ہو گا، مذمت کیا ہوا، دھتکارا ہوا۔‘‘ اسی معنی کی ایک اور آیت سورۂ شوریٰ (۲۰) میں بھی ہے۔ کفار کو دنیا میں کسی نیکی کا فائدہ آخرت میں عذاب کم ہونے کی صورت میں تو ہو سکتا ہے، لیکن ان کا آگ سے نکلنا کسی صورت ممکن نہیں، جیسا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی حمایت اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی سفارش کی وجہ سے ابوطالب کے عذاب میں تخفیف ہو گی، مگر وہ آگ سے نکل نہیں سکے گا۔ اسی طرح آیات سے معلوم ہوتا ہے کہ کفر میں زیادتی اور کمی کی وجہ سے جہنم میں کفار کے عذاب میں کمی بیشی ہو گی، جیسا کہ فرمایا : ﴿ اِنَّ الْمُنٰفِقِيْنَ فِي الدَّرْكِ الْاَسْفَلِ مِنَ النَّارِ ﴾ [ النساء : ۱۴۵ ] ’’بے شک منافق لوگ آگ کے سب سے نچلے درجے میں ہوں گے۔‘‘ نیکی کی کمی بیشی کی وجہ سے جنت کے درجات اور بدی کی کمی بیشی کی وجہ سے جہنم کے درکات میں فرق ہو گا۔ البتہ کفار کی کوئی نیکی انھیں جہنم سے نہیں نکال سکے گی، کیونکہ آخرت میں نیک عمل کی قبولیت کے لیے ایمان شرط ہے۔ دیکھیے سورۂ حجر کی دوسری آیت کی تفسیر۔ علمائے تفسیر نے ان دو آیتوں کو عام بھی مانا ہے اور لکھا ہے کہ اس میں منافق اور ریا کار بھی شامل ہیں کہ ان کے عمل بھی آخرت میں اکارت جائیں گے۔ چنانچہ ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : ((رَجُلٌ اسْتُشْهِدَ فَأُتِيَ بِهٖ فَعَرَّفَهٗ نِعْمَتَهٗ فَعَرَفَهَا، قَالَ فَمَا عَمِلْتَ فِيْهَا، قَالَ قَاتَلْتُ فِيْكَ حَتَّى اسْتُشْهِدْتُ قَالَ كَذَبْتَ وَلٰكِنَّكَ قَاتَلْتَ لِأَنْ يُّقَالَ جَرِيْئٌ فَقَدْ قِيْلَ ثُمَّ اُمِرَ بِهٖ فَسُحِبَ عَلٰی وَجْهِهٖ حَتّٰی أُلْقِيَ فِي النَّارِ ))[ مسلم، الإمارۃ، باب من قاتل للریاء....: ۱۹۰۵ ] ’’قیامت کے دن ایک شہید کو لایا جائے گا، اللہ تعالیٰ اسے اپنی نعمتوں کی پہچان کرائے گا، وہ انھیں پہچان لے گا، تو اللہ تعالیٰ فرمائے گا : ’’تو نے ان کے لیے کیا کیا؟‘‘ وہ کہے گا : ’’یا اللہ! میں نے لڑتے لڑتے تیری راہ میں جان دے دی۔‘‘ اللہ تعالیٰ فرمائیں گے : ’’تو نے جھوٹ کہا، تو نے محض اس لیے جنگ کی تھی کہ لوگ تجھے بہادر کہیں، چنانچہ تجھے یہ داد مل گئی۔‘‘ پھر حکم ہو گا اور اسے چہرے کے بل گھسیٹ کر آگ میں ڈال دیا جائے گا۔‘‘ اس کے بعد آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ریا کار قاری اور ریاکار دولت مند کے متعلق بھی یہی بیان فرمایا۔ واضح رہے کہ اگر اس آیت کو عام رکھا جائے تو ’’لَيْسَ لَهُمْ فِي الْاٰخِرَةِ اِلَّا النَّارُ ‘‘ (ان کے لیے آخرت میں آگ کے سوا کچھ نہیں) کی تاویل کی جائے گی کہ کفار اور منافقین کے لیے تو دائمی جہنم ہے، مگر مسلمان گناہ گار سزا کے بعد جہنم سے نکل بھی آئیں گے اور بعض کو اللہ تعالیٰ معاف بھی کر دے گا، اہل سنت کا یہی عقیدہ ہے۔