فَإِلَّمْ يَسْتَجِيبُوا لَكُمْ فَاعْلَمُوا أَنَّمَا أُنزِلَ بِعِلْمِ اللَّهِ وَأَن لَّا إِلَٰهَ إِلَّا هُوَ ۖ فَهَلْ أَنتُم مُّسْلِمُونَ
پھر اگر (تمہارے ٹھہرائے ہوئے معبود) تمہاری پکار کا جواب نہ دیں (اور تم اپنی کوشش میں کامیاب نہ ہو) تو سمجھ لو کہ قرآن اللہ ہی کے علم سے اترا ہے اور یہ بات بھی سچ ہے کہ اس کے سوا کوئی معبود نہیں، اب بتلاؤ کیا تم یہ بات تسلیم کرتے ہو؟
فَاِلَّمْ يَسْتَجِيْبُوْا لَكُمْ فَاعْلَمُوْا ....: اس کے دو معنی ہو سکتے ہیں، ایک یہ کہ اے مسلمانو! اگر وہ کفار تمھارا یہ چیلنج قبول نہ کریں تو یقین کر لو کہ یہ صرف اللہ کے علم سے اتارا گیا ہے اور یہ کہ اس کے سوا کوئی معبود نہیں، تو کیا تم حکم ماننے والے ہو؟ یعنی اپنی کتاب کی حقانیت اس قدر واضح اور روشن ہونے پر تمھارے ایمان و یقین اور اس پر عمل میں اضافہ ہونا لازم ہے، تو کیا تم ایسا کرو گے؟ یا ایمان لانے کے باوجود حکم ماننے میں کوتاہی کرتے رہو گے؟ دوسرا معنی یہ ہے کہ پچھلی آیت میں مشرکین کو جو فرمایا تھا : ﴿ وَ ادْعُوْا مَنِ اسْتَطَعْتُمْ مِّنْ دُوْنِ اللّٰهِ ﴾ کہ اللہ کے سو اجسے بلا سکتے ہو بلا لو، اس کے بعد اب فرمایا، اگر وہ تمام لوگ جنھیں تم اس کام کے لیے بلاؤ گے، مثلاً عرب کے بڑے بڑے فصحاء، بلغاء، شعراء، خطباء اور تمھارے تمام داتا اور دستگیر، اگر ان میں سے کوئی بھی تمھاری بات قبول نہ کرے اور ’’اِنَّا اَعْطَيْنٰكَ الْكَوْثَرَ ‘‘ جیسی تین آیات بھی نہ بنا سکیں تو پھر تمھیں لازم ہے کہ ایک تو اس بات پر یقین کر لو کہ یہ کتاب اللہ کے علم سے نازل کی گئی ہے، اس کی مثل لانا مخلوق کے بس کی بات نہیں۔ دوسرا اس بات پر یقین کر لو کہ اللہ کے سوا کوئی معبود برحق نہیں۔ تو اے جماعت کفار! پھر کیا تم اسلام قبول کرو گے یا اب بھی ضد اور عناد ہی پر اڑے رہو گے ؟