وَلَئِنْ أَخَّرْنَا عَنْهُمُ الْعَذَابَ إِلَىٰ أُمَّةٍ مَّعْدُودَةٍ لَّيَقُولُنَّ مَا يَحْبِسُهُ ۗ أَلَا يَوْمَ يَأْتِيهِمْ لَيْسَ مَصْرُوفًا عَنْهُمْ وَحَاقَ بِهِم مَّا كَانُوا بِهِ يَسْتَهْزِئُونَ
اور اگر ان پر عذاب کا نازل کرنا ایک مقررہ مدت تک ہم تاخیر میں ڈال دیں تو یہ ضرور کہنے لگیں : کون سی بات ہے جو اسے روک رہی ہے؟ سو سن رکھو جس دن عذاب ان پر آئے گا تو پھر کسی کے ٹالے ٹلنے والا نیہں، اور جس بات کی یہ ہنسی اڑایا کرتے تھے (تم دیکھو گے کہ) وہی انہیں آلگی۔
وَ لَىِٕنْ اَخَّرْنَا عَنْهُمُ الْعَذَابَ اِلٰۤى اُمَّةٍ مَّعْدُوْدَةٍ ....: ’’اُمَّةٍ ‘‘ کے بہت سے معانی ہیں، مثلاً جماعت، امام، طریقہ، مدت اور راستہ وغیرہ، یہاں مدت مراد ہے اور ’’مَعْدُوْدَةٍ ‘‘ کا معنی تھوڑی سی ہے، کیونکہ زیادہ چیز کی گنتی نہیں ہوا کرتی اور جو چیز گنی جا سکے وہ آخر ختم ہو جاتی ہے۔ دنیا کے عذاب بدر، احد، خندق، فتح مکہ، قتل، قید، غلامی اور پھر مرنے کے بعد جہنم کے عذاب آنے میں گنتی ہی کے دن ہیں، مگر آ جانے کے بعد پھر وہ عذاب ہٹایا نہیں جا سکے گا اور وہی عذاب جسے وہ مذاق کیا کرتے تھے انھیں چاروں طرف سے گھیر لے گا۔