تِلْكَ أُمَّةٌ قَدْ خَلَتْ ۖ لَهَا مَا كَسَبَتْ وَلَكُم مَّا كَسَبْتُمْ ۖ وَلَا تُسْأَلُونَ عَمَّا كَانُوا يَعْمَلُونَ
(اور پھر جو کچھ بھی ہو) یہ ایک امت تھی جو گزر چکی۔ اس کے لیے وہ تھا جو اس نے اپنے عمل سے کمایا۔ تمہارے لیے وہ ہوگا جو تم اپنے عمل سے کماؤگے۔ تم سے کچھ اس کی پوچھ گچھ نہیں ہوگی کہ ان کے اعمال کیسے تھے
اس آیت میں دوبارہ تنبیہ فرمائی کہ نجات کا تعلق تو اپنی کمائی اور اپنے عمل پر ہے، اگر نجات چاہتے ہو تو ان انبیاء و صالحین کی طرح خود عمل کرو، ورنہ محض ان کی طرف نسبت اور ان کی کرامتیں بیان کرنے سے کچھ حاصل نہیں ہو گا۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : (( مَنْ أَبْطَأَ بِهِ عَمَلُهُ لَمْ يُسْرِعْ بِهٖ نَسَبُهُ)) [ مسلم، الذکر والدعاء، باب فضل الاجتماع .... : ۲۶۹۹، عن أبی ہریرۃ رضی اللّٰہ عنہ ]’’جس کے عمل نے اسے پیچھے رکھا اس کا نسب اسے آگے نہیں بڑھا سکے گا۔‘‘