وَمَا مِن دَابَّةٍ فِي الْأَرْضِ إِلَّا عَلَى اللَّهِ رِزْقُهَا وَيَعْلَمُ مُسْتَقَرَّهَا وَمُسْتَوْدَعَهَا ۚ كُلٌّ فِي كِتَابٍ مُّبِينٍ
اور زمین میں چلنے والا کوئی جانور نہیں ہے جس کی روزی کا انتظام اللہ پر نہ ہو اور وہ نہ جانتا ہو کہ اس کا ٹھکانا کہاں ہے اور وہ جگہ کہاں ہے جہاں بالآخر اس کا وجود سونپ دیا جائے گا؟ یہ سب کچھ (علم الہی کی) کتاب میں مندرج ہے۔
1۔ وَ مَا مِنْ دَآبَّةٍ فِي الْاَرْضِ ....: ’’دَآبَّةٍ ‘‘ ’’دَبَّ يَدِبُّ دَبِيْبًا ‘‘ سے اسم فاعل ہے، جس کا معنی آہستہ چلنا ہے۔ ہر جان دار خواہ مذکر ہو یا مؤنث، عاقل ہو یا غیر عاقل، سب پر ’’دَآبَّةٍ ‘‘ کا لفظ استعمال ہوتا ہے، جیسا کہ فرمایا : ﴿ وَ اللّٰهُ خَلَقَ كُلَّ دَآبَّةٍ مِّنْ مَّآءٍ فَمِنْهُمْ مَّنْ يَّمْشِيْ عَلٰى بَطْنِهٖ وَ مِنْهُمْ مَّنْ يَّمْشِيْ عَلٰى رِجْلَيْنِ وَ مِنْهُمْ مَّنْ يَّمْشِيْ عَلٰى اَرْبَعٍ ﴾ [ النور:۴۵] ’’اور اللہ نے ہر چلنے والا (جان دار) ایک قسم کے پانی سے پیدا کیا، پھر ان میں سے کوئی وہ ہے جو اپنے پیٹ پر چلتا ہے اور ان میں سے کوئی وہ ہے جو دو پاؤں پر چلتا ہے اور ان میں سے کوئی وہ ہے جو چار پر چلتا ہے۔‘‘ اللہ تعالیٰ نے پیٹ پر یا دو یا چار ٹانگوں پر چلنے والے تمام جانداروں کو ’’دَآبَّةٍ ‘‘ فرمایا۔ 2۔ پچھلی آیت میں اللہ تعالیٰ کے علم کی وسعت اور احاطے کا بیان تھا کہ انسان کے ظاہر اور پوشیدہ احوال ہی نہیں، وہ تو دلوں کے خیالات تک سے واقف ہے۔ اس آیت میں اسی پر دلیل پیش کی ہے کہ ہر جان دار کو اللہ تعالیٰ کے ہاں سے روزی پہنچ رہی ہے، پھر اگر اللہ تعالیٰ کا علم وسیع نہ ہوتا تو روزی کا یہ بندوبست کیسے ممکن تھا؟ مگر اس آیت کا یہ مطلب نہیں کہ رزق اللہ کے ذمے ہے تو انسان اس کی کمائی اور تلاش کے لیے محنت نہ کرے، بلکہ رزق کے تمام خزانے اگرچہ اللہ تعالیٰ کے ہاتھ میں ہیں، مگر انسان کو محنت کا حکم ہے اور اسے وہ اسباب اختیار کرنا لازم ہے جن سے رزق حاصل ہوتا ہے، لیکن اس محنت اور ان اسباب پر بھروسا جائز نہیں، تمام اسباب مہیا کرنے کے بعد بھی بھروسا اور توکل صرف اللہ پر لازم ہے، کیونکہ وہ نہ چاہے تو تمام اسباب کے باوجود بندہ رزق سے محروم رہتا ہے اور اگر وہ چاہے تو بندہ کوئی سبب بھی مہیا نہ کر سکے تو وہ اسباب کے بغیر بھی روزی دے سکتا ہے۔ مگر حکم یہی ہے کہ رزق کی تلاش میں نکلو۔ عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : (( لَوْ اَنَّكُمْ كُنْتُمْ تَوَكَّلُوْنَ عَلَی اللّٰهِ حَقَّ تَوَكُّلِهٖ لَرُزِقْتُمْ كَمَا تُرْزَقُ الطَّيْرُ تَغْدُوْ خِمَاصًا وَتَرُوْحُ بِطَانًا )) [ ترمذی، الزہد، باب فی التوکل علی اللّٰہ : ۲۳۴۴ ] ’’اگر تم اللہ پر توکل (بھروسا) کرو جیسا اس پر توکل کا حق ہے تو یقیناً تمھیں اسی طرح رزق دیا جائے جیسے پرندوں کو دیا جاتا ہے، وہ صبح نکلتے ہیں تو خالی پیٹ ہوتے ہیں، شام کو آتے ہیں تو ان کے پیٹ بھرے ہوئے ہوتے ہیں۔‘‘ اس حدیث میں صبح نکلنا کسب ہے اور یہ فکر نہ کرنا کہ کل کو کیا کھائیں گے توکل ہے۔ بہرحال اسباب اختیار کرنا توکل کے منافی نہیں، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : (( اِعْقِلْهَا وَ تَوَكَّلْ )) [ ترمذی، صفۃ القیامۃ، باب حدیث اعقلھا و توکل....: ۲۵۱۷، عن أنس رضی اللّٰہ عنہ ]’’اونٹنی کا گھٹنا باندھ اور توکل کر۔‘‘ ابو امامہ باہلی رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : (( إِنَّ رُوْحَ الْقُدْسِ نَفَثَ فِيْ رَوْعِيْ أَنَّ نَفْسًا لَنْ تَمُوْتَ حَتَّى تَسْتَكْمِلَ أَجَلَهَا وَتَسْتَوْعِبَ رِزْقَهَا فَاتَّقُوا اللّٰهَ وَأَجْمِلُوْا فِي الطَّلَبِ وَلَا يَحْمِلَنَّ أَحَدَكُمُ اسْتِبْطَاءُ الرِّزْقِ أَنْ يَّطْلُبَهُ بِمَعْصِيَةِ اللّٰهِ فَإِنَّ اللّٰهَ تَعَالٰی لَا يُنَالُ مَا عِنْدَهٗ إِلاَّ بِطَاعَتِهٖ )) [ صحیح الجامع : ۲۰۸۵ ] ’’بے شک روح القدس (جبریل علیہ السلام ) نے میرے دل میں وحی کی کہ کوئی جان اس وقت تک فوت نہیں ہو گی جب تک اپنی مقررہ مدت پوری نہ کرلے اور اپنا پورا رزق حاصل نہ کر لے۔ پس تم اللہ سے ڈرو اور (رزق کی) تلاش میں اچھا طریقہ اختیار کرو اور رزق ملنے میں دیر ہو جانا تم میں سے کسی کو اس بات پر آمادہ نہ کر دے کہ وہ اسے اللہ کی نافرمانی کے ذریعے تلاش کرے، کیونکہ اللہ تعالیٰ کے پاس جو کچھ (نعمت اور جنت) ہے وہ اس کی اطاعت کے بغیر حاصل نہیں ہو سکتی۔‘‘ یہ ذہن بھی غلط ہے کہ تلاش اور کوشش کے بغیر رزق نہیں ملتا، کیونکہ اللہ تعالیٰ کی بہت سی مخلوق وہ ہے جسے اسباب اختیار کیے بغیر رزق مل رہا ہے۔ دیکھیے سورۂ عنکبوت (۶۰)۔ (3) وَ يَعْلَمُ مُسْتَقَرَّهَا وَ مُسْتَوْدَعَهَا: یہ بھی اللہ تعالیٰ کے علم ہی کا مزید بیان ہے۔ ’’مُسْتَقَرٌّ ‘‘ اور’’ مُسْتَوْدَعٌ ‘‘ کی تفسیر اگرچہ لوگوں نے مختلف بیان کی ہے، مگر الفاظ کے پیش نظر واضح مطلب یہی نظر آتا ہے کہ اللہ تعالیٰ وہ تمام جگہیں بھی جانتا ہے جہاں انسان نے کچھ مدت کے لیے ٹھہرنا ہے، خواہ باپ کی پشت ہو یا ماں کا رحم، یا زمین کا کوئی حصہ جہاں اس نے زندگی میں ٹھہرنا ہے اور اللہ تعالیٰ وہ جگہیں بھی جانتا ہے جن کے سپرد انسان نے مرنے کے بعد ہونا ہے، خواہ وہ زمین میں کھودی ہوئی جگہ ہو یا کسی جانور کا پیٹ یا جو جگہ بھی اللہ تعالیٰ نے قیامت تک اس کے سپرد ہونے کے لیے لکھی ہے اور وہ سب کچھ اس کے لیے قبر ہی ہے، کیونکہ اللہ تعالیٰ نے ہر انسان کو موت اور قبر دینے کا ذکر فرمایا ہے : ﴿ ثُمَّ اَمَاتَهٗ فَاَقْبَرَهٗ ﴾ [ عبس : ۲۱ ] ’’پھر اسے موت دی، پھر اسے قبر میں رکھوایا۔‘‘ پھر قیامت کو زندہ ہو کر اسے دوزخ کے سپرد ہونا ہے یا جنت کے، یہ سب اس کے لیے ’’مُسْتَوْدَعٌ ‘‘ (سونپے جانے کی جگہ) ہیں۔ خلاصہ یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ ہر جان دار کی زندگی کے ہر حال کو بھی جانتا ہے اور موت کے بعد کے تمام حالات کو بھی۔ ’’كِتٰبٍ مُّبِيْنٍ ‘‘ سے مراد لوح محفوظ ہے۔