أَلَا إِنَّهُمْ يَثْنُونَ صُدُورَهُمْ لِيَسْتَخْفُوا مِنْهُ ۚ أَلَا حِينَ يَسْتَغْشُونَ ثِيَابَهُمْ يَعْلَمُ مَا يُسِرُّونَ وَمَا يُعْلِنُونَ ۚ إِنَّهُ عَلِيمٌ بِذَاتِ الصُّدُورِ
(اے پیغمبر) تو سن رکھ کہ یہ لوگ اپنے سینو کو لپیٹے ہیں کہ اللہ سے چھپیں (یعنی اپنے دل کی باتیں چھپا کر رکھتے ہیں) مگر یاد رکھ (انسان کی کوئی بات بھی اللہ سے پوشیدہ نہیں) یہ جب اپنے سارے کپڑے اوپر ڈال لیتے ہیں تو اس وقت بھی چھپ نہیں سکتے، جو کچھ یہ چھپا کر کریں اور جو کچھ کھلم کھلا کریں سب اللہ کو معلوم ہے، وہ تو سینوں کے اندر کا بھید جاننے والا ہے۔
اَلَا اِنَّهُمْ يَثْنُوْنَ صُدُوْرَهُمْ ....: ’’يَثْنُوْنَ ‘‘ ’’ثَنَي يَثْنِيْ‘‘ (ض) سے فعل مضارع جمع مذکر غائب ہے۔ اس کا معنی ہے دوہرا کرنا، موڑنا۔ دوسرے عدد کو ثانی اسی لیے کہتے ہیں کہ وہ واحد کو دو بنا دیتا ہے۔ ’’ لِيَسْتَخْفُوْا مِنْهُ ‘‘ ’’اِخْتَفَي يَخْتَفِيْ‘‘ کا معنی چھپنا اور استفعال کی سین اور تاء کے اضافے سے معنی میں اضافہ ہو گیا۔ اسی طرح ’’يَسْتَغْشُوْنَ ‘‘ میں بھی سین اور تاء کے اضافے نے معنی میں اضافہ کر دیا ہے۔ اس میں اللہ تعالیٰ کے متعلق مشرکین کے جہل اور لاعلمی کی انتہا بیان ہوئی ہے، جیسا کہ دوسری جگہ اللہ تعالیٰ نے ان کا حال بیان فرمایا : ﴿ وَ مَا كُنْتُمْ تَسْتَتِرُوْنَ اَنْ يَّشْهَدَ عَلَيْكُمْ سَمْعُكُمْ وَ لَاۤ اَبْصَارُكُمْ وَ لَا جُلُوْدُكُمْ وَ لٰكِنْ ظَنَنْتُمْ اَنَّ اللّٰهَ لَا يَعْلَمُ كَثِيْرًا مِّمَّا تَعْمَلُوْنَ ﴾ [ حٰمٓ السجدۃ : ۲۲ ] ’’اور تم اس سے پردہ نہیں کرتے تھے کہ تمھارے خلاف تمھارے کان گواہی دیں گے اور نہ تمھاری آنکھیں اور نہ تمھارے چمڑے اور لیکن تم نے گمان کیا کہ بے شک اللہ بہت سے کام جو تم کرتے ہو، نہیں جانتا۔‘‘ گویا ان کے خیال میں اللہ تعالیٰ سے چھپ کر بھی کچھ کام ہو سکتے ہیں جن کا اسے پتا نہ چلے۔ عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ نے بیان فرمایا : (( اِجْتَمَعَ عِنْدَ الْبَيْتِ ثَقَفِيَّانِ وَ قُرَشِيٌّ، أَوْ قُرشِيَّانِ وَ ثَقِفِيٌّ، كَثِيْرَةٌ شَحْمُ بُطُوْنِهِمْ قَلِيْلَةٌ فِقْهُ قُلُوْبِهِمْ، فَقَالَ أَحَدُهُمْ: أَتَرَونَ أنَّ اللّٰهَ يَسْمَعُ مَا نَقُوْلُ ؟ قَالَ الْاَخَرُ : يَسْمَعُ إِنْ جَهَرْنَا وَلاَ يَسْمَعُ إِنْ أَخْفَيْنَا، وَ قَالَ الْآخَرُ : إِنْ كَانَ يَسْمَعُ إِذْا جَهَرْنَا فَإِنَّهٗ يَسْمَعُ إِذْا أَخْفَيْنَا، فَأَنْزَلَ اللّٰهُ تَعَالٰی: ﴿ وَ مَا كُنْتُمْ تَسْتَتِرُوْنَ اَنْ يَّشْهَدَ عَلَيْكُمْ سَمْعُكُمْ وَ لَاۤ اَبْصَارُكُمْ وَ لَا جُلُوْدُكُمْ ﴾ )) ’’کعبہ کے پاس دو قریشی اور ایک ثقفی یا دو ثقفی اور ایک قریشی جمع ہوئے، جن کے پیٹوں کی چربی بہت تھی اور دلوں کی سمجھ بہت کم تھی، تو ان میں سے ایک نے کہا : ’’کیا تم سمجھتے ہو کہ ہم جو کچھ کہہ رہے ہیں اللہ تعالیٰ اسے سن رہا ہے؟‘‘ دوسرے نے کہا : ’’اگر ہم بلند آواز سے بات کریں تو سنتا ہے، اگر آہستہ کریں تو نہیں۔‘‘ تو اگلے نے کہا : ’’اگر وہ اس وقت سنتا ہے جب ہم بلند آواز سے بولتے ہیں تو یقیناً وہ اس وقت بھی سنتا ہے جب ہم آہستہ بات کرتے ہیں۔‘‘ اس پر یہ آیت نازل ہوئی : ﴿ وَ مَا كُنْتُمْ تَسْتَتِرُوْنَ اَنْ يَّشْهَدَ عَلَيْكُمْ سَمْعُكُمْ وَ لَاۤ اَبْصَارُكُمْ وَ لَا جُلُوْدُكُمْ ﴾ [حٰمٓ السجدۃ : ۲۲] [ بخاری، التوحید، باب قول اللّٰہ عزوجل : ﴿ وما کنتم تستترون ....﴾ : ۷۵۲۱ ] اس سے معلوم ہوا کہ کئی جاہل مشرکین یہ بھی سمجھتے تھے کہ آہستہ بات کریں تو اللہ تعالیٰ کو پتا نہیں چلتا۔ تو معلوم ہوا کہ وہ اللہ تعالیٰ کو مانتے تھے، البتہ جب بھی اللہ کی ناراضگی والا کوئی کام کرتے تو خوب چھپ کر تاکہ اللہ تعالیٰ سے چھپے رہیں، اسے پتا نہ چل جائے، کبھی کپڑوں اور دیواروں کے پردے کے پیچھے، کبھی سینہ دوہرا کرکے حاصل ہونے والی پوشیدگی کے ذریعے سے، مثلاً ملاوٹ کرنے کے لیے، دھوکا دینے کے لیے یا کوئی اور شنیع فعل کرنے کے لیے سینہ دوہرا کرکے اپنے خیال میں اپنے آپ کو اللہ تعالیٰ سے چھپا لیتے۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ یاد رکھو! خوب اچھی طرح کپڑے لپیٹ کر بھی تم جو کچھ کرتے ہو اسے بھی وہ جانتا ہے، بلکہ اس سے بھی کہیں آگے جو کچھ سینوں کے حصار میں محفوظ دل کے اندر باتیں ہیں وہ انھیں بھی خوب جانتا ہے، اس لیے تمھارے یہ خیال اور یہ حرکات لغو اور باطل ہیں، ان کا تمھیں کچھ فائدہ نہیں۔ ایک تفسیر یہ ہے کہ اوپر جو فرمایا تھا : ﴿ وَ اِنْ تَوَلَّوْا فَاِنِّيْۤ اَخَافُ عَلَيْكُمْ عَذَابَ يَوْمٍ كَبِيْرٍ ﴾ (اور اگر تم پھر جاؤ تو یقیناً میں تم پر ایک بڑے دن کے عذاب سے ڈرتا ہوں) وہاں ظاہری اور جسمانی طور پر منہ پھیرنا مراد تھا اور یہاں دل سے اعراض مراد ہے، کیونکہ سینے سے مراد دل ہوتا ہے، جیسا کہ ’’ عَلِيْمٌۢ بِذَاتِ الصُّدُوْرِ ‘‘ سے بھی ظاہر ہے۔ ’’ يَثْنُوْنَ صُدُوْرَهُمْ ‘‘ گویا سینے کو موڑنا محاورہ ہے، مراد دل کو موڑنا، اعراض کرنا، غلط سوچنا، بے اصل شبہات سے اپنے دل کو تسلی دینا، عقائد حقہ سے اعراض کرنا وغیرہ ہے، کیونکہ یہاں صدور سے مراد علوم صدر ہیں۔ (فتح الرحمان از شاہ ولی اللہ) مطلب یہ ہے کہ وہ اپنے سینوں میں جو کفر و عناد رکھتے ہیں اسے چھپا کر رکھنے کی کوشش کرتے ہیں، تاکہ اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کو ان کے چھپے ہوئے رازوں کی اطلاع نہ ہونے پائے۔ (شوکانی) یہ دونوں حوالے ہمارے استاذ مرحوم نے اشرف الحواشی میں نقل کیے ہیں۔ صحیح بخاری میں عبد اللہ بن عباس رضی اللہ عنھما سے ایک اور ہی مطلب منقول ہے کہ ایک صاحب نے ان سے اس آیت کا مطلب پوچھا تو انھوں نے فرمایا : ’’کچھ لوگ اس سے حیا کرتے تھے کہ قضائے حاجت کے وقت اپنی شرم گاہوں کو آسمان کے سامنے ننگا کریں اور اپنی بیویوں سے جماع کریں تو شرم گاہوں کو آسمان کے سامنے ظاہر کریں، تو یہ آیت ان کے بارے میں اتری۔‘‘ [ بخاری، التفسیر، باب : ألا إنہم یثنون صدورھم....: ۴۶۸۱، ۴۶۸۲ ] اس شان نزول سے معلوم ہوتا ہے کہ یہ آیت ان مسلمانوں کے بارے میں نازل ہوئی ہے جو غلبۂ حیا کی وجہ سے قضائے حاجت اور ہم بستری کے وقت ننگا ہونے سے پرہیز کرتے تھے کہ اللہ تعالیٰ ہمیں دیکھ رہا ہے۔ اس لیے وہ ایسے موقعوں پر شرم گاہ کو چھپانے کے لیے اپنے سینے کو دہرا کر لیتے۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ رات کے اندھیرے میں جب وہ بستروں میں اپنے آپ کو ڈھانپ لیتے ہیں تو اس وقت بھی وہ ان کو دیکھتا اور ان کی چھپی اور علانیہ باتوں کو جانتا ہے۔ مطلب یہ ہے کہ شرم و حیا کا جذبہ اپنی جگہ بہت اچھا ہے، لیکن اس میں اتنا غلو اور زیادتی بھی صحیح نہیں، اس لیے کہ جس ذات کی خاطر وہ ایسا کرتے ہیں اس سے تو وہ پھر بھی چھپ نہیں سکتے تو پھر اس طرح کے تکلف کا کیا فائدہ؟ اگرچہ یہ تفسیرحبر الامہ سے حدیث کی صحیح ترین کتاب صحیح بخاری میں آئی ہے اور بلاشبہ درست ہے، مگر اکثر مفسرین نے فرمایا کہ آیات کے سیاق کے مطابق یہ آیت کفار کے رویے ہی سے تعلق رکھتی ہے، کیونکہ پہلے اور بعد میں مسلسل انھی کا ذکر ہو رہا ہے۔ ابن عباس رضی اللہ عنھما کی تفسیر کا مطلب یہ ہے کہ یہ آیت ان مسلمانوں پر بھی صادق آتی ہے جو حیا کے جذبے سے ایسا کرتے تھے۔ اصول تفسیر میں اہل علم نے یہ بات واضح فرمائی ہے کہ صحابہ و تابعین کسی آیت کے متعلق جہاں بھی وہ منطبق ہوتی اور صادق آتی ہو کہہ دیتے ہیں ’’نَزَلَتْ فِيْ كَذَا‘‘ کہ یہ آیت فلاں چیز کے بارے میں اتری، اس لیے ایک ہی آیت کے کئی شان نزول صحابہ و تابعین سے مروی ہوتے ہیں اور ان میں کوئی تضاد نہیں ہوتا بلکہ سبھی مراد ہو سکتے ہیں۔ البتہ یہ عین ممکن ہے کہ آیت کے نزول کے وقت یا اس کے قریب ان میں سے کوئی ایک واقعہ یا چند واقعات ہی ظہور پذیر ہوئے ہوں اور دوسرے واقعات انطباق کی وجہ سے شان نزول قرار دے دیے گئے ہوں۔