الر ۚ كِتَابٌ أُحْكِمَتْ آيَاتُهُ ثُمَّ فُصِّلَتْ مِن لَّدُنْ حَكِيمٍ خَبِيرٍ
الر۔ یہ کتاب ہے جس کی آیتیں (اپنے مطالب و دلائل میں) مضبوط کی گئیں پھر کھول کھول کر واضح کردی گئیں، یہ اس کی طرف سے ہے جو حکمت والا (اور ساتھ ہی) ساری باتوں کی خبر رکھنے والا ہے۔
1۔ الٓرٰ: دیکھیے سورۂ بقرہ کی پہلی آیت۔ 2۔ كِتٰبٌ اُحْكِمَتْ اٰيٰتُهٗ : یہاں قرآن کریم کی چار صفات بیان ہوئی ہیں، پہلی یہ کہ یہ قرآن (پڑھا جانے والا مجموعہ) کتاب (لکھا ہوا مجموعہ) بھی ہے، دوسری یہ کہ اس کی آیات محکم یعنی خوب پختہ، مضبوط اور اٹل نازل کی گئی ہیں، جن میں کوئی عیب یا کمی نہیں اور نہ وہ (مجموعی اعتبار سے) منسوخ ہیں، نہ منسوخ ہوں گی اور نہ اس کے مقابلے میں کوئی کتاب لائی جا سکتی ہے، خواہ ساری مخلوق جمع ہو جائے، ایسی محکم آیات والی کتاب صرف یہ ہے۔ 3۔ ثُمَّ فُصِّلَتْ: تیسری یہ کہ اس کی آیات ایسی واضح ہیں اور کھول کر بیان کی گئی ہیں کہ کسی آیت کے مفہوم میں ابہام یا پیچیدگی نہیں ہے، پھر ساری کتاب مختلف سورتوں اور آیتوں میں تقسیم ہے۔ ہر آیت جدا جدا ہے، اپنی جگہ مستقل، ایک بے حد خوبصورت ہار کی طرح جو رنگا رنگ مضامین توحید، آخرت، نبوت، قصص کے موتیوں سے پرویا ہوا ہے اور وہ نہایت مناسب فاصلے، ترتیب اور حسن سے اپنی اپنی جگہ جگمگا رہے ہیں، پھر نزول میں بھی آیات اور سورتیں ضرورت کے مطابق الگ الگ نازل کی گئی ہیں۔ ’’فُصِّلَتْ ‘‘ میں یہ سب باتیں آ جاتی ہیں۔ 4۔ مِنْ لَّدُنْ حَكِيْمٍ خَبِيْرٍ : چوتھی یہ کہ یہ کسی انسان، فرشتے، جن یا کسی بھی مخلوق کی تصنیف نہیں، بلکہ اس ذات پاک کا کلام ہے جو حکیم ہے۔ حکیم کا ایک معنی پختہ و محکم بنانے والا ہے، جس کی بنائی ہوئی ہر چیز نہایت محکم، پختہ اور مضبوط ہے، فرمایا : ﴿ صُنْعَ اللّٰهِ الَّذِيْ اَتْقَنَ كُلَّ شَيْءٍ ﴾ [ النمل : ۸۸ ] ’’اس اللہ کی کاری گری سے جس نے ہر چیز کو مضبوط بنایا۔‘‘ یعنی پہاڑ اور ان کا قیامت کو بادلوں کی طرح چلنا اس اللہ کی کاری گری ہے جس نے ہر چیز کو مضبوط بنایا۔ جب اس کی مخلوق کا یہ حال ہے تو اس کے کلام کے محکم ہونے کی کوئی حد ہو گی؟ حکیم کا دوسرا معنی حکمت، یعنی دانائی والا ہے، یعنی اس کی تمام آیات کمال حکمت اور دانائی سے پُر ہیں، خبیر یعنی ان کو اتارنے والا ہر چیز سے پوری طرح باخبر ہے۔