أَمْ تَقُولُونَ إِنَّ إِبْرَاهِيمَ وَإِسْمَاعِيلَ وَإِسْحَاقَ وَيَعْقُوبَ وَالْأَسْبَاطَ كَانُوا هُودًا أَوْ نَصَارَىٰ ۗ قُلْ أَأَنتُمْ أَعْلَمُ أَمِ اللَّهُ ۗ وَمَنْ أَظْلَمُ مِمَّن كَتَمَ شَهَادَةً عِندَهُ مِنَ اللَّهِ ۗ وَمَا اللَّهُ بِغَافِلٍ عَمَّا تَعْمَلُونَ
جس کے پاس اللہ کی ایک گواہی موجود ہو اور وہ اسے چھپائے؟ (اور محض اپنی بات کی پچ کے لیے سچائی کا اعلان نہ کرے؟) یاد رکھو جو کچھ بھی تم کر رہے ہو، اللہ اس سے غافل نہیں ہے
یہودیت اپنے موجودہ نظریات و عقائد کے مطابق موسیٰ علیہ السلام کے بہت بعد اور نصرانیت اپنے مخصوص نظریات و عقائد کے مطابق عیسیٰ علیہ السلام کے بہت بعد وجود میں آئی۔ یہود و نصاریٰ کے عالم لوگ اس بات کو اچھی طرح جانتے تھے کہ ابراہیم، اسماعیل، اسحاق، یعقوب علیہم السلام اور ان کی اولاد اس یہودیت و نصرانیت سے، بلکہ موسیٰ اور عیسیٰ علیہما السلام سے بھی بہت پہلے ہو گزرے ہیں ، مگر یہود و نصاریٰ کے ان علماء نے عوام کے ذہن میں یہ بات پختہ کر دی تھی کہ یہ تمام انبیاء یہود کے قول کے مطابق یہودی تھے اور نصاریٰ کے قول کے مطابق نصرانی تھے۔ اس آیت میں اللہ تعالیٰ نے علمائے یہود و نصاریٰ کی اس بددیانتی کو ظاہر فرمایا ہے اور شہادت چھپانے کے مجرم قرار دے کر سب سے بڑے ظالم قرار دیا ہے۔ یہود و نصاریٰ کے اس فعل کی مثال امتِ مسلمہ میں ایسے ہے جیسے کوئی مسلم عالم عوام کو یہ باور کروائے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فقہ حنفی یا فقہ شافعی کے مطابق فیصلے فرماتے تھے، حالانکہ اسے خوب معلوم ہے کہ امام ابوحنیفہ اور امام شافعی رحمہما اللہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے بہت بعد پیدا ہوئے اور وہ نبی بھی نہیں تھے کہ ان کی بات حجت ہو۔