وَلَوْ شَاءَ رَبُّكَ لَآمَنَ مَن فِي الْأَرْضِ كُلُّهُمْ جَمِيعًا ۚ أَفَأَنتَ تُكْرِهُ النَّاسَ حَتَّىٰ يَكُونُوا مُؤْمِنِينَ
اور (اے پیغمبر) اگر تیرا پروردگار چاہتا تو جتنے آدمی روئے زمین پر ہیں سب کے سب ایمان لے آتے (اور دنیا میں اعتقاد کا اختلاف باقی ہی نہ رہتا لیکن تو دیکھ رہا ہے کہ اللہ نے ایسا نہیں چاہا، اس کی مشیت یہی ہوئی کہ طرح طرح کی طبیعتیں اور طرح طرح کی استعداد دیں ظہور میں آئیں، پھر اگر لوگ نہیں ماتے تو) کیا تو ان پر جبر کرے گا کہ جب تک ایمان نہ لاؤ میں چھوڑنے والا نہیں؟
1۔ وَ لَوْ شَآءَ رَبُّكَ لَاٰمَنَ ....: یعنی اگر اللہ تعالیٰ چاہتا تو فرشتوں کی طرح جنوں اور انسانوں کی فطرت بھی ایسی بنا دیتا کہ وہ کفر و نافرمانی کر ہی نہ سکتے، یا ان سب کے دل ایمان و طاعت کی طرف پھیر دیتا، لیکن اس طرح چونکہ جنوں اور انسانوں کو علیحدہ قسم کی حیثیت سے پیدا کرنے کا مقصد ہی فوت ہو جاتا۔ (دیکھیے ہود : ۱۱۸، ۱۱۹۔ فاطر : ۸) اس لیے اس نے اپنی مرضی سے ان کی فطرت میں یہ چیز رکھی ہے کہ وہ عقل سے کام لے کر چاہیں تو ایمان و طاعت کا راستہ اختیار کریں یا چاہیں تو کفر و نافرمانی کا۔ 2۔ اَفَاَنْتَ تُكْرِهُ النَّاسَ حَتّٰى يَكُوْنُوْا مُؤْمِنِيْنَ : یعنی ایمان دل کا معاملہ ہے، اس پر کسی کو مجبور کیا جا سکتا ہی نہیں اور مجبور کرنا جائز بھی نہیں، فرمایا : ﴿ لَا اِكْرَاهَ فِي الدِّيْنِ ﴾ [ البقرۃ : ۲۵۶ ] ’’دین میں کوئی زبردستی نہیں۔‘‘ اگر آپ کسی کو زبردستی مسلمان بنا بھی لیں تو دل کی کیا ضمانت ہے کہ اس میں بھی ایمان آ چکا ہے۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی ازراہ شفقت یہ زبردست خواہش تھی کہ اللہ کے سب بندے ایمان لے آئیں، اس لیے اس آیت میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ کہہ کر تسلی دی گئی کہ یہ چونکہ ہونے والی بات نہیں، اس لیے آپ کیوں اپنے آپ کو رنج و کرب میں مبتلا کرتے ہیں؟