فَمَا آمَنَ لِمُوسَىٰ إِلَّا ذُرِّيَّةٌ مِّن قَوْمِهِ عَلَىٰ خَوْفٍ مِّن فِرْعَوْنَ وَمَلَئِهِمْ أَن يَفْتِنَهُمْ ۚ وَإِنَّ فِرْعَوْنَ لَعَالٍ فِي الْأَرْضِ وَإِنَّهُ لَمِنَ الْمُسْرِفِينَ
تو دیکھو اس پر بھی ایسا ہوا کہ موسیٰ پر کوئی ایمان نہیں لایا مگر صرف ایک گروہ جو اس کی قوم کے نوجوانوں کا گروہ تھا، وہ بھی فرعون اور اس کے سرداروں سے ڈرتا ہوا کہ کہیں کسی مصیبت میں نہ ڈال دیں، اور اس میں شک نہیں کہ فرعون ملک (مصر) میں بڑا ہی سرکش (بادشاہ) تھا اور اس میں بھی شک نہیں کہ (ظلم و استبداد میں) بالکل چھوٹ تھا۔
فَمَاۤ اٰمَنَ لِمُوْسٰۤى اِلَّا ذُرِّيَّةٌ مِّنْ قَوْمِهٖ ....: اتنے واضح معجزات دیکھنے اور جادوگروں کی شکست اور ان کے ایمان لانے کے باوجود موسیٰ علیہ السلام پر اس کی قوم کے چند لڑکوں کے سوا کوئی ایمان نہ لایا۔ یہاں ’’اس کی قوم‘‘ سے کس کی قوم مراد ہے ؟ ابن جریر طبری رحمہ اللہ کی رائے یہ ہے کہ موسیٰ علیہ السلام کی اپنی قوم بنی اسرائیل کے چند لڑکے لڑکیوں کے سوا کوئی ایمان نہ لایا، وہ بھی فرعون اور اپنے یعنی بنی اسرائیل کے سرداروں کے خوف کے ہوتے ہوئے جو فرعون کے ایجنٹ تھے کہ وہ انھیں ایمان سے ہٹانے کے لیے آزمائشوں اور مصیبتوں میں ڈالیں گے۔ اس تفسیر کا نتیجہ تو یہی ہے کہ فرعون کی قوم میں سے جادوگروں کے سوا اور بنی اسرائیل میں سے چند لڑکوں کے سوا ایک شخص بھی ایمان نہ لایا۔ فرعون کی پوری قوم اور بنی اسرائیل کے تمام بڑی عمر کے لوگ ایمان سے محروم اور فرعون کے دین پر رہے۔ ابن جریر اور ان کے ہم خیال حضرات کا کہنا ہے کہ یہ کیفیت ابتدائی دور کی ہے، بعد میں تو قارون کے سوا سب بنی اسرائیل موسیٰ علیہ السلام پر ایمان لے آئے تھے۔ ’’مَلَاۡىِٕهِمْ ‘‘ (ان کے سرداروں) میں ’’هُمْ‘‘ ضمیر جمع یا تو فرعون کی طرف لوٹ رہی ہے، کیونکہ مصری لوگ فرعون کے لیے بطور تعظیم جمع کی ضمیر استعمال کرتے تھے، یا اس سے مراد بنی اسرائیل کے سردار ہیں، یعنی بنی اسرائیل میں سے جو نوجوان ایمان لائے انھیں ایک طرف فرعون کا ڈر تھا اور دوسری طرف خود اپنے سرداروں کا۔ لیکن حافظ ابن کثیررحمہ اللہ نے آیت کے اس مطلب کی سخت تردید کی ہے، ان کی ترجیح میں ’’ذُرِّيَّةٌ مِّنْ قَوْمِهٖ ‘‘ میں ’’هٖ‘‘ ضمیر فرعون کی طرف لوٹ رہی ہے، کیونکہ بنی اسرائیل تو پہلے سے موسیٰ علیہ السلام کی آمد کے منتظر تھے اور ان کے تشریف لانے پر سب کے سب ایمان لے آئے اور اس کی تائید اگلی آیت بھی کر رہی ہے جس سے معلوم ہوتا ہے کہ تمام کے تمام بنی اسرائیل موسیٰ علیہ السلام پر ایمان لا چکے تھے، البتہ فرعون کی قوم قبطیوں میں سے چند نوجوان ہی ایسے نکلے جو موسیٰ علیہ السلام پر ایمان لائے اور آیت کا ترجمہ یوں ہو گا : ’’پھر موسیٰ پر اس (فرعون) کی قوم قبطیوں میں سے صرف چند نوجوان ہی ایمان لائے اور وہ فرعون اور اپنے سرداروں سے ڈرے کہ کہیں وہ فرعون انھیں آزمائش میں نہ ڈالے۔‘‘ یہ ترجمہ زیادہ واضح ہے اور علمائے تحقیق نے اسی کو ترجیح دی ہے۔ (ابن کثیر، روح المعانی) اگر غور کیا جائے تو بنی اسرائیل کا موسیٰ علیہ السلام کے آنے سے پہلے بھی اپنی تمام خرابیوں کے باوجود مسلمان ہونا اور پیغمبروں کی اولاد ہونے پر فخر کرنا معلوم ہے، ورنہ اگر وہ فرعون کا دین قبول کر لیتے اور آزادی کا مطالبہ نہ کرتے تو فرعون کو ان کے لڑکوں کو قتل کرنے کی کیا ضرورت تھی۔ موسیٰ علیہ السلام کا ایک قبطی کو قتل کرنے کا واقعہ بھی اپنی قوم کے آدمی کی حمایت ہی کی وجہ سے پیش آیا۔ اس وقت بھی موسیٰ علیہ السلام بنی اسرائیل کو اپنی جماعت اور قبطیوں کو اپنا دشمن سمجھتے تھے اور بنی اسرائیل بھی موسیٰ علیہ السلام کے متعلق یہی سمجھتے تھے، تب ہی اس اسرائیلی نے موسیٰ علیہ السلام کو مدد کے لیے پکارا، حالانکہ موسیٰ علیہ السلام کو اس وقت تک نبوت عطا نہیں ہوئی تھی۔ اب اگر خدانخواستہ اہل کشمیر ہندو ہو جائیں یا فلسطینی یہودی ہو جائیں تو ہندوؤں اور یہودیوں کو ان پر ظلم و جبر کی کیا ضرورت ہے، مگر عقیدے اور عمل کی بے شمار خرابیوں کے باوجود ان کا مسلمان ہونا اور اس پر استقامت کفار کو کسی صورت برداشت نہیں۔