قَالُوا أَجِئْتَنَا لِتَلْفِتَنَا عَمَّا وَجَدْنَا عَلَيْهِ آبَاءَنَا وَتَكُونَ لَكُمَا الْكِبْرِيَاءُ فِي الْأَرْضِ وَمَا نَحْنُ لَكُمَا بِمُؤْمِنِينَ
انہوں نے (جواب میں) کہا، کیا تم اس لیے ہمارے پاس آئے ہو کہ جس راہ پر ہم نے اپنے باپ دادوں کو چلتے دیکھا ہے اس سے ہمیں ہٹا دو اور ملک میں تم دونوں بھائیوں کے لیے سرداری ہوجائے؟ ہم تو تمہیں ماننے والے نہیں۔
قَالُوْۤا اَجِئْتَنَا ....: فرعون اور اس کے ساتھی اپنے شرکیہ عقائد کی وجہ سے مذہبی برتری بھی جتاتے رہتے تھے اور سرزمین مصر کی حکومت پر قبضے کی وجہ سے تمام وسائل کے مالک بن کر سیاسی طور پر بھی سب سے بڑے بنے ہوئے تھے، اس لیے انھوں نے یہ دو الزام دھر دیے۔ معلوم ہوتا ہے کہ اصلاح کی ہر تحریک، پرانی ہو یا نئی، وقت کے تمام فرعون اس پر یہی الزام رکھتے ہیں کہ ان لوگوں کا مقصد اصلاح نہیں، بلکہ ہماری مذہبی سیادت اور سیاسی برتری کو ختم کرنا اور اپنی حکومت قائم کرنا ہے، جیسا کہ نوح علیہ السلام کی قوم کے سرداروں نے بھی کہا تھا کہ یہ شخص محض تم پر برتری حاصل کرنا چاہتا ہے، فرمایا : ﴿يُرِيْدُ اَنْ يَّتَفَضَّلَ عَلَيْكُمْ ﴾ [ المؤمنون : ۲۴ ] ’’یہ چاہتا ہے کہ تم پر برتری حاصل کرلے۔‘‘ حالانکہ انبیاء اور مصلحین محض اصلاح کے لیے آتے ہیں، اگر حکمران اسلام قبول کر لیں اور خود ہی اصلاح کا فریضہ سرانجام دیں تو ان کی حکومت سے تعرض نہیں کیا جاتا۔ مثلاً اس دور میں محمد بن عبد الوہاب رحمہ اللہ نے ابن سعود کے ذریعے سے توحید و سنت کی دعوت کو پھیلایا، خود حکومت طلب نہیں کی، نہ ان کی اولاد میں سے کسی نے یہ خواہش یا کوشش کی۔ ابن تیمیہ رحمہ اللہ نے وقت کے حاکموں کو جہاد پر ابھار کر اور ان کا ساتھ دے کر تاتاریوں کو مار بھگایا، خود کوئی عہدہ نہ طلب کیا نہ قبول کیا۔ اس لیے ہرقل نے اپنی قوم سے کہا تھا کہ اگر چاہتے ہو کہ تمھاری حکومت قائم رہے تو اسلام قبول کر لو، مگر وہ بدنصیب نکلے اور ہرقل بھی ان کی بادشاہت کے طمع میں ایمان سے محروم رہا۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مسلمان ہونے والے قبائل کے سرداروں کو اور مختلف علاقوں کے مسلمان ہونے والے بادشاہوں، مثلاً ثمامہ بن اثال رضی اللہ عنہ وغیرہ کو ان کے عہدوں پر قائم رکھا۔ آخر میں فرعون کے ساتھیوں نے نہایت ڈھٹائی سے کہا کہ ہم تم دونوں کو ہر گز ماننے والے نہیں۔