ثُمَّ بَعَثْنَا مِن بَعْدِهِ رُسُلًا إِلَىٰ قَوْمِهِمْ فَجَاءُوهُم بِالْبَيِّنَاتِ فَمَا كَانُوا لِيُؤْمِنُوا بِمَا كَذَّبُوا بِهِ مِن قَبْلُ ۚ كَذَٰلِكَ نَطْبَعُ عَلَىٰ قُلُوبِ الْمُعْتَدِينَ
پھر نوح کے بعد ہم نے (کتنے ہی) رسولوں کو ان کی قوموں میں پیدا کیا، وہ ان کے پاس روشن دلیلیں لے کر آئے تھے اس پر بھی ان کی قومیں تیار نہ تھیں کہ جو بات پہلے جھٹلا چکی ہیں اسے (دلیلیں دیکھ کر) مان لیں، سو دیکھو جو لوگ (سرکشی اور فساد میں) حد سے گزر جاتے ہیں ہم اسی طرح ان کے دلوں پر مہر لگا دیتے ہیں۔
1۔ ثُمَّ بَعَثْنَا مِنْۢ بَعْدِهٖ رُسُلًا اِلٰى قَوْمِهِمْ: یہاں نوح علیہ السلام کے بعد جن پیغمبروں کے مبعوث ہونے کی طرف اشارہ فرمایا ہے ان میں ہود، صالح، ابراہیم، لوط اور شعیب علیھم السلام خاص طور پر قابل ذکر ہیں۔ جن کا تذکرہ اگلی سورت ہود میں آ رہا ہے اور قرآن کے دوسرے مقامات پر بھی مرقوم ہے اور ’’اِلٰى قَوْمِهِمْ ‘‘ کے الفاظ سے اشارہ فرما دیا ہے کہ نوح علیہ السلام اور ان کے بعد جتنے پیغمبر ہوئے ہیں ان میں سے کسی کی رسالت بنی نوع انسان کے لیے عام نہیں تھی بلکہ خاص خاص اقوام کی طرف مبعوث ہوتے رہے ہیں۔ البتہ نوح علیہ السلام کی بعثت میں اختلاف ہے، صحیح یہ ہے کہ وہ بھی خاص طور پر اپنی قوم ہی کی طرف مبعوث تھے۔ (ہمارے استاذ مولانا محمد عبدہ رحمہ اللہ کی تحقیق کے مطابق صحیح یہی ہے کہ طوفان سے روئے زمین کے تمام لوگ غرق نہیں ہوئے بلکہ خاص علاقہ تباہ و برباد ہوا ہے) یہ درجہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ہی کو حاصل ہے کہ ان کی رسالت تمام اقوام عالم کے لیے عام ہے اور قیامت تک اسی طرح باقی رہے گی۔ دیکھیے سورۂ سبا (۲۸)۔ 2۔ فَجَآءُوْهُمْ بِالْبَيِّنٰتِ: یعنی ایسے دلائل و معجزات لے کر آئے جو اس بات پر دلالت کرتے تھے کہ واقعی یہ اللہ کے رسول ہیں۔ ہمارے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کا معجزہ قرآن سب سے بڑا اور سب سے زیادہ مؤثر تھا، جس کی وجہ سے آپ کی امت بھی سب سے زیادہ ہوئی۔ تفصیل کے لیے دیکھیے سورۂ عنکبوت (۵۰، ۵۱) کے فوائد۔ 3۔ فَمَا كَانُوْا لِيُؤْمِنُوْا بِمَا كَذَّبُوْا بِهٖ مِنْ قَبْلُ : لیکن یہ امتیں رسولوں کی دعوت پر ایمان نہیں لائیں، اس کا سبب یہ ہوا کہ جب اللہ کے رسول شروع میں ان کے پاس آئے تو انھوں نے اپنی سرکشی اور تکبر کی وجہ سے ایمان لانے سے انکار کر دیا اور یہ انکار ان کے لیے مستقل حجاب بن گیا اور وہ یہی سوچتے رہے کہ جسے ہم جھٹلا چکے اب اس پر ایمان کیسے لائیں۔ نتیجتاً وہ ایمان کی نعمت سے محروم رہے۔ امام ابن جریررحمہ اللہ نے ’’كَذَّبُوْا ‘‘ کا فاعل قوم نوح کو بنایا ہے۔ اس صورت میں معنی یہ ہو گا کہ ان رسولوں کی قومیں بھی ایسی نہ تھیں جو اس چیز پر ایمان لاتیں جسے قوم نوح اور پہلے کے لوگ اس سے قبل جھٹلا چکے تھے، بلکہ ان کے دلوں پر قوم نوح کی طرح مہر لگ گئی۔ پہلا معنی زیادہ مناسب ہے، اگرچہ یہ بھی درست ہے۔ 4۔ كَذٰلِكَ نَطْبَعُ عَلٰى قُلُوْبِ الْمُعْتَدِيْنَ : یعنی ایسے لوگوں کو اللہ تعالیٰ آخر کار یہ سزا دیتا ہے کہ انھیں کبھی راہِ ہدایت پانے کی توفیق نہیں ہوتی اور یہی مطلب ہے اللہ تعالیٰ کا ان کے دلوں پر مہر لگانے کا۔ آئندہ بھی جو یہ روش اختیار کرے گا اسے یہی سزا ملے گی۔ دیکھیے سورۂ بقرہ (۷)، انعام (۱۰۹، ۱۱۰) اور انفال (۲۴)۔