قَالُوا اتَّخَذَ اللَّهُ وَلَدًا ۗ سُبْحَانَهُ ۖ هُوَ الْغَنِيُّ ۖ لَهُ مَا فِي السَّمَاوَاتِ وَمَا فِي الْأَرْضِ ۚ إِنْ عِندَكُم مِّن سُلْطَانٍ بِهَٰذَا ۚ أَتَقُولُونَ عَلَى اللَّهِ مَا لَا تَعْلَمُونَ
یہ کہتے ہیں اللہ نے اپنا ایک بیٹا بنا رکھا ہے، اس کے لے تقدیس ہو، وہ تو (اس طرح کی تمام احتیاجوں سے) بے نیاز ہے، جو کچھ آسمانوں میں ہے اور جو کچھ زمین میں ہے سب اسی کے لیے ہے، تمہارے پاس ایسی بات کہنے کے لیے کون سی دلیل آگئی؟ کیا تم اللہ کے بارے میں ایسی بات کہنے کی جرات کرتے ہو جس کے لیے تمہارے پاس کوئی علم نہیں؟
1۔ قَالُوا اتَّخَذَ اللّٰهُ وَلَدًا : یہاں ان کے ایک اور غلط عقیدے اور باطل خیال کی تردید کی ہے۔ مشرکین فرشتوں کو اللہ کی بیٹیاں قرار دیتے تھے، یہود عزیر علیہ السلام کو اور نصاریٰ مسیح علیہ السلام کو اللہ کا بیٹا قرار دیتے تھے، ان کے اس عقیدے کی بنیاد بھی چونکہ محض ظن و تخمین پر تھی، اس لیے یہاں ’’ اِنْ يَّتَّبِعُوْنَ اِلَّا الظَّنَّ ‘‘ کے تحت اس کی بھی تردید فرما دی۔ 2۔ سُبْحٰنَهٗ هُوَ الْغَنِيُّ: یہ ان کے شرک کو رد کرنے اور صرف اکیلے اللہ کے غنی ہونے کی دلیل ہے۔ مطلب یہ ہے کہ اللہ کسی کا محتاج نہیں کہ اسے بیٹے یا بیٹی کی ضرورت ہو، وہ ہمیشہ سے ہے اور ہمیشہ رہے گا، آسمان و زمین کی ہر چیز اس کی ملکیت ہے، جبکہ بیٹا ملکیت نہیں بلکہ جانشین ہوتا ہے، پھر اولاد کا حاصل کرنا شہوت و لذت کو چاہتا ہے جو دونوں چیزیں بیوی کا محتاج بناتی ہیں، جبکہ اللہ کسی کا محتاج نہیں، وہ اکیلی ذات ہی تو غنی اور ہر ایک سے بے پروا ہے۔ ’’هُوَ الْغَنِيُّ ‘‘ میں ’’هُوَ ‘‘ کے بعد ’’ الْغَنِيُّ ‘‘ پر الف لام کا معنی ہی یہ ہے کہ اس کے سوا کوئی غنی، کوئی بے پروا ہے ہی نہیں، سب محتاج ہیں۔ اولاد وہی حاصل کرتا ہے جو فانی ہو، تاکہ اس کے فنا ہونے کے بعد اولاد اس کی قائم مقام ہو جائے، اللہ تعالیٰ کی ذات ازلی اور ابدی ہے، شہوت و لذت اور فقر و احتیاج سے پاک اور بالا ہے، لہٰذا اس کی طرف اولاد کی نسبت سرے سے محال ہے۔ دیکھیے سورۂ بنی اسرائیل (۱۱۱)، کہف (۴، ۵) اور مریم (۸۸ تا ۹۰)۔ 3۔ اِنْ عِنْدَكُمْ مِّنْ سُلْطٰنٍۭ بِهٰذَا : ان کے عقیدے کو دلیل سے رد کرنے کے بعد مزید رد اور انکار کے لیے فرمایا کہ ان کے پاس اس کی قطعاً کوئی دلیل نہیں ہے۔ اس سے معلوم ہوا کہ ہر وہ بات جس کے ساتھ اس کی دلیل نہ ہو توجہ کے قابل نہیں ہوتی۔ (شوکانی) 4۔ اَتَقُوْلُوْنَ عَلَى اللّٰهِ مَا لَا تَعْلَمُوْنَ : یہ نہایت مبالغہ کے ساتھ ان کے گمان کی تردید ہے، یعنی تم وہ بات کہتے ہو جس کا تمھیں کوئی علم نہیں، کیا تم سب سے عظیم اور ہر چیز کی مالک ہستی اللہ تعالیٰ پر وہ بات کہتے ہو جس کی نہ تمھارے پاس کوئی دلیل ہے اور نہ کوئی علم۔ محض جہل کی بنیاد پر بہتان باندھ رہے ہو۔ آلوسی نے فرمایا : ’’اس آیت میں دلیل ہے کہ ہر وہ بات جس کی دلیل نہ ہو علم نہیں بلکہ جہل ہے، جب کہ عقیدے کے لیے قطعی یقینی علم ضروری ہے اور یہ کہ تقلید کا ہدایت سے کوئی تعلق نہیں۔‘‘ قرآن مجید نے کئی جگہ اہل باطل سے دلیل کا مطالبہ کیا ہے، فرمایا : ﴿ قُلْ هَاتُوْا بُرْهَانَكُمْ اِنْ كُنْتُمْ صٰدِقِيْنَ ﴾ [ البقرۃ : ۱۱۱ ] ’’کہہ دے لاؤ اپنی دلیل اگر تم سچے ہو۔‘‘ مزید دیکھیے سورۂ انبیاء (۲۴)، نمل (۶۴) اور قصص (۷۵)۔