أَلَا إِنَّ لِلَّهِ مَن فِي السَّمَاوَاتِ وَمَن فِي الْأَرْضِ ۗ وَمَا يَتَّبِعُ الَّذِينَ يَدْعُونَ مِن دُونِ اللَّهِ شُرَكَاءَ ۚ إِن يَتَّبِعُونَ إِلَّا الظَّنَّ وَإِنْ هُمْ إِلَّا يَخْرُصُونَ
یاد رکھو وہ تمام ہستیاں جو آسمانوں میں ہیں اور وہ سب جو زمین میں ہیں اللہ ہی کے تابع فرمان ہیں، اور جو لوگ اللہ کے سوا اپنے ٹھہرائے ہوئے شریکوں کو پکارتے ہیں تم جانتے ہو وہ کس بات کی پیروی کرتے ہیں؟ (کیا یقین و بصیرت کی؟ نہیں) محض وہم و گمان کی، وہ اس کے سوا کچھ نہیں ہیں کہ (ہر بات میں) اپنی اٹکلیں دوڑاتے ہیں۔
1۔ اَلَا اِنَّ لِلّٰهِ مَنْ فِي السَّمٰوٰتِ وَ مَنْ فِي الْاَرْضِ: ’’اَلَا ‘‘ سے خبردار کیا کہ بات پر غور کرو۔ ’’مَنْ ‘‘ کا لفظ عام طور پر ذوی العقول یعنی انسان، جن اور فرشتوں پر بولا جاتا ہے۔ اس جملے سے دو باتیں نہایت واضح ہیں، ایک تو یہ کہ جب آسمان و زمین کا ہر شخص انسان ہو یا جن یا فرشتہ، وہ صرف اور صرف اللہ تعالیٰ کی ملکیت ہے، تو یہ کفار و مشرکین بھی، جو آپ کی مخالفت کر رہے ہیں، اسی کی ملکیت ہوئے، وہی ان کے معاملات جس طرح چاہتا ہے چلاتا ہے، لہٰذا آپ کو ان کی ایذا رسانی اور طعن و تشنیع سے رنجیدہ ہونے کی ضرورت نہیں، کیونکہ وہ آپ کو کوئی ایسی تکلیف نہیں پہنچا سکتے جس کی اللہ تعالیٰ نے اجازت نہ دی ہو اور اس میں اللہ تعالیٰ کی کوئی حکمت نہ ہو۔ دوسری یہ کہ جب یہ تینوں افضل مخلوقات اللہ تعالیٰ ہی کی ملکیت ہیں تو باقی چیزیں، پتھر، بت، دریا، درخت، جانور اور قبریں تو بدرجۂ اولیٰ اس کی ملکیت ہیں۔ تو کتنی بے عقلی کی بات ہے کہ مالک کو چھوڑ کر مملوک کی پرستش کی جائے، اس لیے اس کے ساتھ ہی شرک کی تردید فرمائی۔ (شوکانی، ابن کثیر) 2۔ وَ مَا يَتَّبِعُ الَّذِيْنَ يَدْعُوْنَ مِنْ دُوْنِ اللّٰهِ شُرَكَآءَ : یعنی حقیقت میں تو کوئی بھی اللہ کا شریک نہیں کہ یہ کہا جائے کہ فلاں اللہ کا شریک ہے۔ مملوک مالک کا شریک کیسے ہو سکتا ہے؟ رہا یہ سوال کہ پھر اتنے بے شمار لوگوں نے جو شریک بنا رکھے ہیں یہ کیسے بن گئے؟ فرمایا، اللہ کے سوا جس کسی کی بھی کوئی پوجا کرتا ہے، اسے مشکل کشا یا حاجت روا سمجھتا یا اسے پکارتا ہے، ان میں سے کسی شریک کا بھی حقیقت میں کوئی وجود نہیں، وہ محض ان مشرکوں کے وہم اور خیال کے تراشے ہوئے خاکے ہیں اور حقیقت میں تمام مشرک خواہ بت پرست ہوں، قبر پرست یا کسی بھی چیز کو پوجنے والے، وہ محض اپنے خیال ہی کے پیچھے لگے ہوئے ہیں اور اسی کی پوجا کر رہے ہیں۔ البتہ اپنے وہم و گمان کے تراشے ہوئے خاکے کا انھوں نے کوئی نہ کوئی نام رکھ چھوڑا ہے، کوئی لات، کوئی عزیٰ، کوئی غوث، کوئی مشکل کشا، کوئی دستگیر، کوئی داتا۔ دیکھیے سورۂ نجم (۲۳ تا ۲۸)۔ 3۔ ’’ وَ مَا يَتَّبِعُ الَّذِيْنَ يَدْعُوْنَ ‘‘ میں بعض علماء نے ’’ مَا ‘‘ کو استفہامیہ بنایا ہے، گویا معنی یہ ہو گا کہ جو لوگ اللہ کے سوا شرکاء کو پکارتے ہیں، آخر وہ کیا چیز ہے جسے وہ پکار رہے ہیں؟ کیونکہ کسی شریک کا تو وجود ہی نہیں، پھر خود ہی اس سوال کا جواب دیا کہ وہ محض اپنے وہم و گمان کے پیچھے لگے ہوئے ہیں۔ 4۔ اِنْ يَّتَّبِعُوْنَ اِلَّا الظَّنَّ ....: یہ لوگ عقل سے کام نہیں لیتے اور نہ دلیل کو دیکھتے ہیں، اگر عقل سے کام لیتے اور دلیل پر غور کرتے تو انھیں صاف معلوم ہو جاتا کہ اللہ تعالیٰ ہی حق اور اکیلا معبود ہے، اس کا کوئی شریک نہیں ہو سکتا۔ ان کے پاس وہم و گمان اور اٹکل پچو کے سوا کچھ بھی نہیں۔