وَيَسْتَنبِئُونَكَ أَحَقٌّ هُوَ ۖ قُلْ إِي وَرَبِّي إِنَّهُ لَحَقٌّ ۖ وَمَا أَنتُم بِمُعْجِزِينَ
اور تجھ سے پوچھتے ہیں کیا یہ بات واقعی سچ ہے؟ تم (بلا تامل) کہو ہاں میرا پروردگار اس پر شاہد ہے کہ یہ سچائی کے سوا کچھ نہیں، اور تم کھی ایسا نہیں کرسکتے کہ اسے (اس کے کاموں میں) عاجز کردو۔
1۔ وَ يَسْتَنْۢبِـُٔوْنَكَ اَحَقٌّ هُوَ ....: ’’نَبَأٌ ‘‘ بہت بڑی اہمیت والی خبر کو کہتے ہیں۔ (راغب) ’’يَسْتَنْبِـُٔوْنَ‘‘ ’’نَبَأٌ‘‘ کے باب استفعال سے طلب کے لیے ہے۔ جب کفار کو ان کے سوال ’’مَتٰي هٰذَا الْوَعْدُ ‘‘ کا مذکورہ جواب دیا گیا تو انھوں نے اسی سلسلہ میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے دوبارہ سوال کیا ’’اَحَقٌّ هُوَ ‘‘ کیا یہ سچ ہی ہے، یا محض ہمیں ڈرایا جا رہا ہے؟ چونکہ کفار اپنے قیامت کے انکار اور قرآن کے اس کے قیام پر واضح دلائل کی وجہ سے سخت قلق اور پریشانی کا شکار تھے کہ اسے مانیں یا نہ مانیں، اس لیے اللہ تعالیٰ نے ان کے جواب میں یقین دلانے کے لیے تاکید کے کئی الفاظ جمع کرکے فرمایا ’’قُلْ ‘‘ آپ ان سے کہہ دیجیے :اِيْ وَ رَبِّيْۤ اِنَّهٗ لَحَقٌّ ’’اِيْ‘‘ کا معنی ’’نَعَمْ ‘‘ یعنی ہاں ہے، مگر یہ ہمیشہ قسم کے ساتھ آتا ہے، پھر’’إِنَّ‘‘ تاکید کا ہے، پھر لامِ تاکید ہے کہ ہاں، مجھے اپنے رب کی قسم ہے ! یقیناً یہ ضرور حق ہے۔ حافظ ابن کثیررحمہ اللہ نے فرمایا، قرآن مجید میں اس جیسی صرف دو اور آیتیں ہیں، جن میں اللہ تعالیٰ نے آخرت کے منکروں کو قسم کھا کر کہنے کا حکم دیا، پہلی آیت : ﴿ وَ قَالَ الَّذِيْنَ كَفَرُوْا لَا تَاْتِيْنَا السَّاعَةُ قُلْ بَلٰى وَ رَبِّيْ لَتَاْتِيَنَّكُم﴾ [ سبا : ۳ ] دوسری آیت : ﴿ زَعَمَ الَّذِيْنَ كَفَرُوْۤا اَنْ لَّنْ يُّبْعَثُوْاقُلْ بَلٰى وَ رَبِّيْ لَتُبْعَثُنَّ ﴾ [التغابن : ۷ ] 2۔ وَ مَاۤ اَنْتُمْ بِمُعْجِزِيْنَ : ’’باء‘‘ کی وجہ سے نفی کی تاکید کے لیے ترجمہ ’’ہر گز‘‘ کیا گیا ہے، یعنی نہ تم ہمارے عذاب سے بھاگ کر کہیں جا سکتے ہو کہ ہمیں پکڑنے سے عاجز کر دو اور نہ کسی طرح اسے روک سکتے ہو۔