قُلْ أَرَأَيْتُمْ إِنْ أَتَاكُمْ عَذَابُهُ بَيَاتًا أَوْ نَهَارًا مَّاذَا يَسْتَعْجِلُ مِنْهُ الْمُجْرِمُونَ
(اے پیغمبر) تم ان لوگوں سے کہو کیا تم نے اس بات پر بھی غور کیا کہ تم کیا کرو گے اگر اس کا عذاب راتوں رات نازل ہو یا دن دہاڑے تم پر مسلط ہوجائے؟ پھر کیا بات ہے جس کے لیے مجرم جلدی مچار رہے ہیں؟
قُلْ اَرَءَيْتُمْ اِنْ اَتٰىكُمْ عَذَابُهٗ ....: ’’اَرَءَيْتُمْ ‘‘ کا لفظی معنی تو یہی ہے کہ ’’کیا تم نے دیکھا‘‘ مگر اہل عرب اس سے مراد ’’اَخْبِرُوْنِيْ‘‘ لیتے ہیں، یعنی اگر تم نے دیکھا ہے تو بتاؤ۔ ’’بَيَاتًا ‘‘ یعنی رات کو، گھر کو ’’بَيْتٌ ‘‘ اسی لیے کہتے ہیں کہ آدمی وہاں رات گزارتا ہے۔ یہ ان کے سوال ’’مَتٰي هٰذَا الْوَعْدُ ‘‘ کا دوسرا جواب ہے، یعنی اگر بالفرض عذاب رات سوتے ہوئے یا دن کی مصروفیت میں یک لخت آگیا تو وہ کون سی میٹھی اور خوش گوار چیز ہے کہ مجرم جلد از جلد اس کا مطالبہ کر رہے ہیں، وہ تو نہایت تلخ اور ناقابل برداشت چیز ہے، اس کے آنے کے بعد ایمان لانا فائدہ مند نہیں ہو سکے گا اور آخرت میں دائمی عذاب سامنے ہے، پس جب حالت یہ ہے تو اس کے آنے کی کیوں جلدی مچا رہے ہیں۔