قُلْ هَلْ مِن شُرَكَائِكُم مَّن يَهْدِي إِلَى الْحَقِّ ۚ قُلِ اللَّهُ يَهْدِي لِلْحَقِّ ۗ أَفَمَن يَهْدِي إِلَى الْحَقِّ أَحَقُّ أَن يُتَّبَعَ أَمَّن لَّا يَهِدِّي إِلَّا أَن يُهْدَىٰ ۖ فَمَا لَكُمْ كَيْفَ تَحْكُمُونَ
ان سے پوچھو کیا تمہارے بنائے ہوئے شریکوں میں کوئی ہے جو حق کی راہ دکھاتا ہے؟ پھر جو حق کی راہ دکھائے وہ اس کا حقدار ہے کہ اس کی پیروی کی جائے یا وہ خود ہی راہ نہیں پاتا جب تک اسے راہ نہ دکھائی جائے؟ (افسوس تم پر) تمہیں کیا ہوگیا ہے؟ تم کیسے فیصلے کر رہے ہو؟
1۔ قُلْ هَلْ مِنْ شُرَكَآىِٕكُمْ مَّنْ يَّهْدِيْۤ اِلَى الْحَقِّ....: ’’يَهْدِيْ‘‘ ہدایت دیتا ہے۔ ’’لَا يَهِدِّيْ‘‘ اصل میں ’’لاَ يَهْتَدِيْ‘‘ تھا، تاء کو دال سے بدل کر دال میں ادغام کر دیا، جس کا معنی ہے ہدایت نہیں پاتا، یعنی آپ ان سے پوچھیں کہ اللہ تعالیٰ نے مخلوق کو پیدا کرکے ان کی حق کی طرف راہنمائی کا انتظام بھی فرمایا، رسول بھیجے، کتابیں اتاریں، شریعت مقرر فرمائی، کائنات کا نہایت دقیق و مستحکم نظام مقرر کیا کہ اس کے مقرر کر دہ راستے سے کوئی چیز ایک ذرہ ادھر ادھر نہیں ہوتی۔ انسان کو پیدا ہوتے ہی پستان چوسنا سکھایا، فرمایا : ﴿وَ هَدَيْنٰهُ النَّجْدَيْنِ ﴾ [ البلد : ۱۶ ] ’’اور ہم نے اسے دو واضح راستے دکھا دیے۔‘‘ بطخ کو تیرنا، پرندوں کو اڑنا، درندوں کو شکار کرنا، چرندوں کو چرنا، بلبل کو پھول کی طرف رغبت، پروانے کو جلنا، ماں کو محبت کی طرف، موذی اشیاء کو دشمنی کی طرف راہ نمائی کون کر رہا ہے؟ اسی طرح زمین، آسمان، سورج، چاند، سیاروں، کہکشاؤں، سمندروں اور بادلوں کا راستہ کہاں سے متعین ہو رہا ہے؟ غرض ہر چیز محض اللہ کی ہدایت کے مطابق چل رہی ہے، کسی داتا یا دستگیر کا اس میں کوئی دخل ہے تو پیش کرو۔ بتاؤ تمھارا وہ شریک کون سا ہے جس نے حق کی طرف ہدایت کا کام کیا ہو، یا کائنات کے راہِ راست پر چلنے کے نظام میں اس کا کوئی دخل ہو۔ اب خود ہی بتاؤ کہ وہ ذات پاک جو حق کی طرف ہدایت دیتی ہے، شرعی طور پر بھی اور کونی طور پر بھی، اس کا اتباع کیا جانا چاہیے، یا وہ شرکاء جو اللہ تعالیٰ کی ’’کونی‘‘ ہدایت کے بغیر خود اپنا راستہ معلوم نہیں کر سکتے، جنھیں کھانا، پینا، چلنا، دیکھنا سب کچھ اللہ تعالیٰ نے سکھایا، وہ خود کچھ بھی نہیں کر سکتے تھے۔ رازی نے فرمایا، اللہ تعالیٰ نے قرآن مجید میں اکثر اپنی توحید کے اثبات کے لیے خلق کے ساتھ ہدایت کو بھی ذکر فرمایا ہے، چنانچہ ابراہیم علیہ السلام کا قول : ﴿ الَّذِيْ خَلَقَنِيْ فَهُوَ يَهْدِيْنِ ﴾ [ الشعراء : ۷۸ ] ’’وہ جس نے مجھے پیدا کیا، پھر وہ مجھے راستہ دکھاتا ہے۔‘‘ اور موسیٰ علیہ السلام کا قول : ﴿ رَبُّنَا الَّذِيْۤ اَعْطٰى كُلَّ شَيْءٍ خَلْقَهٗ ثُمَّ هَدٰى ﴾ [ طٰہٰ : ۵۰ ]’’ہمارا رب وہ ہے جس نے ہر چیز کو اس کی شکل و صورت بخشی، پھر راستہ دکھایا۔‘‘ اور ہمارے نبی مکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو بھی اسی کا حکم دیا، چنانچہ فرمایا : ﴿ سَبِّحِ اسْمَ رَبِّكَ الْاَعْلَى () الَّذِيْ خَلَقَ فَسَوّٰى () وَ الَّذِيْ قَدَّرَ فَهَدٰى ﴾ [ الأعلٰی : ۱ تا ۳ ]’’اپنے رب کے نام کی تسبیح کر جو سب سے بلند ہے۔ وہ جس نے پیدا کیا، پھر درست بنایا۔ اور وہ جس نے اندازہ ٹھہرایا، پھر راستہ دکھایا۔‘‘ 2۔ فَمَا لَكُمْ كَيْفَ تَحْكُمُوْنَ : یہ دو جملے ہیں ڈانٹنے کے لیے اور حق کی طرف توجہ دلانے کے لیے، دو طرح سے سوال کیا، ایک یہ کہ تمھیں کیا ہو گیا؟ دوسرا یہ کہ تم کیسے فیصلہ کرتے ہو؟