سورة یونس - آیت 31

قُلْ مَن يَرْزُقُكُم مِّنَ السَّمَاءِ وَالْأَرْضِ أَمَّن يَمْلِكُ السَّمْعَ وَالْأَبْصَارَ وَمَن يُخْرِجُ الْحَيَّ مِنَ الْمَيِّتِ وَيُخْرِجُ الْمَيِّتَ مِنَ الْحَيِّ وَمَن يُدَبِّرُ الْأَمْرَ ۚ فَسَيَقُولُونَ اللَّهُ ۚ فَقُلْ أَفَلَا تَتَّقُونَ

ترجمہ ترجمان القرآن - مولانا ابوالکلام آزاد

(اے پیغمبر) ان لوگوں سے پوچھو وہ کون ہے جو تمہیں آسمان و زمین کی بخشائشوں کے ذریعہ روزی دیتا ہے؟ وہ کون ہے جس کے قبضۃ میں تمہارا سننا اور دیکھنا ہے؟ وہ کون ہے جو زندہ کو مردہ سے نکلتا ہے اور مردہ کو زندہ سے؟ اور پھر وہ کون ہے جو تمام کارخانہ ہستی کا انتظام کر رہا ہے؟ وہ (فورا) بول اٹھیں گے کہ اللہ، پس تم کہو، اگر ایسا ہی ہے تو پھر تم (انکار حق کے نتیجہ سے) ڈرتے نہیں؟

تفسیر القرآن کریم (تفسیر عبدالسلام بھٹوی) - حافظ عبدالسلام بن محمد

قُلْ مَنْ يَّرْزُقُكُمْ مِّنَ السَّمَآءِ وَ الْاَرْضِ....: بت پرستوں کی حماقتوں اور ان کا انجام بیان کرنے کے بعد اب یہاں سے بت پرستی کی تردید میں دلائل کا بیان شروع ہوا ہے۔ خلاصہ یہ کہ یہاں چار چیزیں شرک کی تردید اور توحید الٰہی کی دلیل کے طور پر پیش فرمائی ہیں، اول یہ کہ آسمان و زمین سے رزق کون دیتا ہے؟ آسمان سے بارش برسانے والا اور زمین سے تمھارے کھانے اور ضرورت کی ہر چیز پیدا کرکے تمھیں روزی دینے والا کون ہے؟ دوم انسان کے حواس جن میں سب سے زیادہ باشرف سمع و بصر ہیں، جو انسان کے علم کا ذریعہ بنتے ہیں، یہ دونوں کس کے قبضہ میں ہیں کہ اگر چاہے تو چھین کر اندھا اور بہرا کر دے؟ سوم موت و حیات کا اختیار کس کے پاس ہے، کون ہے جو زندہ کو مردہ سے اور مردہ کو زندہ سے نکالتا ہے؟ مثلاً نطفہ اور جان دار، انڈا اور پرندے، بیج اور لہلہاتے کھیت اور درخت، مومن اور کافر میں سے ایک کو دوسرے سے کون نکالتا ہے۔ چہارم پوری کائنات کے ہر معاملہ کی تدبیر کون کرتا ہے کہ اس میں نہ کوئی خرابی ہے نہ حادثہ ؟ تدبیر میں پہلی تمام چیزیں بھی آجاتی ہیں، جو باقی رہ گئی تھیں تدبیر کی صراحت کے بعد وہ سب بھی شامل ہو گئیں۔ یہ خاص کے بعد عام کا ذکر ہے۔ فَسَيَقُوْلُوْنَ۠ اللّٰهُ....: یہ ’’سین‘‘ تاکید کے لیے ہے، قرآن مجید اور کلام عرب میں اس کی بہت سی مثالیں موجود ہیں، یعنی یہ مشرک بھی ضرور کہیں گے کہ وہ تو اللہ تعالیٰ ہی ہے۔ فرمایا تم ان سے کہو کہ پھر کیا تم ڈرتے نہیں؟ اس سے معلوم ہوا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے وقت کے کافر بھی اس بات کے قائل تھے کہ کوئی اللہ کے برابر نہیں اور کوئی اس کا مقابلہ نہیں کر سکتا، مگر بتوں یا بزرگوں کو اس کی جناب میں اپنا وکیل اور وسیلہ سمجھ کر مانتے تھے، اس سے کافر ہو گئے۔ سو اب بھی جو کوئی کسی مخلوق کے لیے عالم میں تصرف ثابت کرے اور اپنا وکیل ہی سمجھ کر اس کو مانے اس پر شرک ثابت ہو جاتا ہے، گو اللہ کے برابر نہ سمجھے اور اس کے مقابلہ کی طاقت اس کو ثابت نہ کرے۔