سورة البقرة - آیت 132

وَوَصَّىٰ بِهَا إِبْرَاهِيمُ بَنِيهِ وَيَعْقُوبُ يَا بَنِيَّ إِنَّ اللَّهَ اصْطَفَىٰ لَكُمُ الدِّينَ فَلَا تَمُوتُنَّ إِلَّا وَأَنتُم مُّسْلِمُونَ

ترجمہ ترجمان القرآن - مولانا ابوالکلام آزاد

اور پھر اسی طریقہ کی ابراہیم نے اپنے بیٹوں کو اور (اس کے پوتے) یعقوب نے اپنی اولاد کو وصیت کی تھی۔ انہوں نے کہا "اے میرے بیٹو ! خدا نے تمہارے لیے اس دین (حقیقی) کی راہ پسند فرما لی ہے تو دیکھو، دنیا سے نہ جانا مگر اس حالت میں کہ تم مسلم ہو (یعنی فرمانبردار ہو)

تفسیر القرآن کریم (تفسیر عبدالسلام بھٹوی) - حافظ عبدالسلام بن محمد

الدِّيْنَ“ سے مراد یہاں اسلام ہے، کیونکہ پچھلی آیت میں ابراہیم علیہ السلام کے اسی دین کو اختیار کرنے کا ذکر ہے۔ مسلم ہونے کی حالت میں فوت ہونا اسی وقت ممکن ہے جب بندہ ہر وقت مسلم یعنی تابع فرمان رہے، کبھی کوتاہی ہو تو فوراً توبہ کرے، کیونکہ موت کسی بھی وقت آ سکتی ہے۔ انبیاء علیہم السلام کو اپنے اوراپنی اولاد سے متعلق آخری وقت مسلم ہونے کی بہت فکر رہتی تھی، کیونکہ اعمال کا دارو مدار خاتمہ پر ہے، حدیث ہے: (( إِنَّمَا الْأَعْمَالُ بِالْخَوَاتِيْمِ )) [ بخاری، القدر، باب العمل بالخواتیم : ۶۶۰۷ ] یوسف علیہ السلام کی دعا ہے : ﴿ تَوَفَّنِيْ مُسْلِمًا وَّ اَلْحِقْنِيْ بِالصّٰلِحِيْنَ ﴾ [ یوسف : ۱۰۱] ’’مجھے مسلم ہونے کی حالت میں فوت کر اور مجھے نیک لوگوں کے ساتھ ملا دے۔‘‘ اگرچہ آخر وقت مسلمان ہونا بندے کے اختیار میں نہیں بلکہ اللہ تعالیٰ کے ہاتھ میں ہے، مگر اللہ تعالیٰ کی سنت یہی ہے کہ جو آدمی دلی لگاؤ کے ساتھ نیک و بد جو بھی راستہ اختیار کرتا ہے تو اور اس پر کاربند رہنے کی کوشش کرتا ہے تو اللہ تعالیٰ کی طرف سے اسے اسی کی توفیق دے دی جاتی ہے۔ دیکھیے سورۂ لیل (۵ تا ۱۰)۔