إِنَّ الَّذِينَ كَفَرُوا سَوَاءٌ عَلَيْهِمْ أَأَنذَرْتَهُمْ أَمْ لَمْ تُنذِرْهُمْ لَا يُؤْمِنُونَ
(لیکن) وہ لوگ جنہوں نے (ایمان کی جگہ) انکار کی راہ اختیار کی (اور سچائی کے سننے اور قبول کرنے کی استعداد کھودی) تو (ان کے لیے ہدایت کی تمام صدائیں بیکار ہیں) تم انہیں (انکار حق کے نتائج سے) خبرار کرو یا نہ کرو وہ ماننے والے نہیں
لَا يُؤْمِنُوْنَ: اس سے مراد تمام کفار توہو نہیں سکتے، کیونکہ بے شمار کافر دعوت کے نتیجے میں ایمان لائے اور لا رہے ہیں ۔ اس لیے یہاں مراد وہ لوگ ہیں جو پچھلی آیات میں مذکور چھ چیزوں کا یا ان میں سے بعض کا انکار کر دیتے ہیں اور ہٹ دھرمی کی اس حد تک پہنچ جاتے ہیں کہ اگر یہ حق بھی ہو تو ہم اسے نہیں مانیں گے، جیسے بعض یہود مدینہ [بقرة : ۱۴۶] اور ابو جہل اور اس کے ساتھی وغیرہ۔ [انفال : ۳۲] جب کوئی طے کر لے کہ میں نے ماننا ہی نہیں تو اسے ایمان کیسے نصیب ہو سکتاہے ؟ سوئے ہوئے کو جگایا جاتا ہے، جاگتے ہوئے مدہوش کو کون جگا سکتا ہے؟ اس کے یہ معنی نہیں کہ ڈرانا بالکل فضول ہے، بلکہ اللہ تعالیٰ کا پیغام ہر شخص تک پہنچانا فرض ہے، کیونکہ ہم نہیں جانتے کہ اللہ کے علم میں کون ایمان لانے والا ہے اور کس کی قسمت میں کفر پر اصرار ہے، ہمیں ہر حال میں ڈرانے پر ثواب ملے گا اور نہ ڈرانے پر باز پرس ہو گی۔ اس لیے فرمایا کہ ڈرانا نہ ڈرانا ان پر برابر ہے، یہ نہیں فرمایا کہ آپ پر برابر ہے۔ یہاں ہمزہ کا معنی ’کیا ‘ نہیں ہو گا، بلکہ یہ برابری کا مفہوم ادا کر رہا ہے، اسے ’ہمزہ تسویہ‘ کہتے ہیں ۔