سورة یونس - آیت 19

وَمَا كَانَ النَّاسُ إِلَّا أُمَّةً وَاحِدَةً فَاخْتَلَفُوا ۚ وَلَوْلَا كَلِمَةٌ سَبَقَتْ مِن رَّبِّكَ لَقُضِيَ بَيْنَهُمْ فِيمَا فِيهِ يَخْتَلِفُونَ

ترجمہ ترجمان القرآن - مولانا ابوالکلام آزاد

اور (ابتدا میں) انسانوں کی ایک ہی امت تھی، پھر الگ الگ ہوگئے، اور اگر تمہارے پروردگار کی جانب سے پہلے ایک بات نہ ٹھہرا دی گئی ہوتی (یعنی لوگ الگ الگ راہوں میں چلیں گے اور اسی اختلاف میں ان کے لیے آزمائش عمل ہوگی) تو جن باتوں میں لوگ اختلاف کرر ہے ہیں ان کا فیصلہ کبھی کا ہوچکا ہوتا۔

تفسیر القرآن کریم (تفسیر عبدالسلام بھٹوی) - حافظ عبدالسلام بن محمد

وَ مَا كَانَ النَّاسُ اِلَّاۤ اُمَّةً وَّاحِدَةً فَاخْتَلَفُوْا : اس زمانے کے ملحد فلسفیوں اور تاریخ سازوں کے برعکس قرآن بار بار یہ اعلان کرتا ہے کہ انسانیت کی ابتدا کفر یا شرک سے نہیں بلکہ خالص توحید سے ہوئی۔ ابتدا میں تمام انسان ایک ہی دین، یعنی اسلام رکھتے تھے اور ایک ہی ان کی ملت تھی، لیکن آہستہ آہستہ انھوں نے اس دین سے انحراف کیا اور اپنی خواہشات کے پیچھے لگ کر آپس میں اختلاف کرکے اپنی اپنی مرضی کے دین اور قانون گھڑ لیے۔ دیکھیے سورۂ بقرہ (۲۱۳)۔ وَ لَوْ لَا كَلِمَةٌ سَبَقَتْ....: یعنی اگر اللہ تعالیٰ نے پہلے ہی یہ فیصلہ نہ کر لیا ہوتا کہ دنیا میں لوگوں کو مہلت دی جائے گی، تاکہ وہ اپنی عقل و فہم سے کام لے کر جس راستے کو چاہیں اختیار کریں اور جس راستے کو چاہیں چھوڑ دیں اور قیامت ہی کے دن انھیں ان کے اچھے یا برے اعمال کا بدلہ دیا جائے گا تو کبھی کا اللہ تعالیٰ حقیقت کو بے نقاب کرکے ان لوگوں کو پکڑ چکا ہوتا جو ایمان کا راستہ چھوڑ کر کفر و شرک کے راستے پر چل رہے ہیں۔ (ابن کثیر، قرطبی)