دَعْوَاهُمْ فِيهَا سُبْحَانَكَ اللَّهُمَّ وَتَحِيَّتُهُمْ فِيهَا سَلَامٌ ۚ وَآخِرُ دَعْوَاهُمْ أَنِ الْحَمْدُ لِلَّهِ رَبِّ الْعَالَمِينَ
وہاں ان کی پکار یہ ہوگی کہ خدایا ساری پاکیاں تیرے ہی لیے ہیں ان کی دعا یہ ہوگی کہ سلامتی ہو اور دعاؤں کا خاتمہ یہ ہوگا کہ الحمد للہ رب العالمین۔
1۔ دَعْوٰىهُمْ فِيْهَا سُبْحٰنَكَ اللّٰهُمَّ....: یعنی وہ جنت کی نعمتیں اور عجائب دیکھ کر بے اختیار کہیں گے: ’’اے اللہ! تو پاک ہے‘‘ بلکہ جس طرح دنیا میں خود بخود سانس جاری رہتا ہے اہل جنت کے دل و زبان پر ہر وقت خود بخود اللہ تعالیٰ کی تسبیح و تحمید جاری رہے گی۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : (( إِنَّ أَهْلَ الْجَنَّةِ يَأْكُلُوْنَ فِيْهَا وَيَشْرَبُوْنَ وَلَا يَتْفِلُوْنَ وَلاَ يَبُوْلُوْنَ وَلاَ يَتَغَوَّطُوْنَ وَلاَ يَمْتَخِطُوْنَ، قَالُوْا فَمَا بَالُ الطَّعَامِ؟ قَالَ جُشَاءٌ وَ رَشْحٌ كَرَشْحِ الْمِسْكِ يُلْهَمُوْنَ التَّسْبِيْحَ وَالتَّحْمِيْدَ كَمَا يُلْهَمُوْنَ النَّفَسَ )) [مسلم، الجنۃ و صفۃ نعیمھا، باب في صفات الجنۃ وأھلھا....: ۲۸۳۵، عن جابر بن عبد اللّٰہ رضی اللّٰہ عنھما] ’’جنتی جنت میں کھائیں گے اور پییں گے، وہ نہ تھوکیں گے، نہ پیشاب کریں گے، نہ پاخانہ کریں گے اور نہ ناک صاف کریں گے۔‘‘ صحابہ نے پوچھا : ’’جو کھانا وہ کھائیں گے وہ کہاں جائے گا؟‘‘ تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے جواب دیا : ’’بس ڈکار آئے گا اور پسینا آئے گا جس سے مشک (کستوری) کی خوشبو آئے گی (اور ان کا کھانا تحلیل ہو جائے گا)۔ (ان کے دلوں میں اور ان کی زبانوں پر) تسبیح اور حمد خود بخود بے اختیار جاری ہو گی جس طرح سانس خود بخود جاری ہوتا ہے۔‘‘ ’’تَحِيَّتُهُمْ ‘‘ باب تفعیل کا مصدر، زندگی کی دعا دینا کہ اللہ تمھیں زندگی بخشے، یعنی وہ ایک دوسرے سے ملیں گے تو ایک دوسرے کو زندہ رہنے کی دعا سلام کے الفاظ سے دیں گے، جیسا کہ اللہ تعالیٰ نے سورۂ ابراہیم (۲۳)، سورۂ مریم (۶۰ تا ۶۲) اور سورۂ واقعہ (۲۵، ۲۶) میں بیان فرمایا ہے۔ 2۔ وَ اٰخِرُ دَعْوٰىهُمْ اَنِ الْحَمْدُ لِلّٰهِ رَبِّ الْعٰلَمِيْنَ: اور ان کی دعا اور گفتگو کا اختتام رب العالمین کی حمد کے ساتھ ہو گا، دنیا میں بھی ان کی گفتگو اور دعا کا خاتمہ اللہ تعالیٰ کی حمد و تسبیح کے ساتھ ہوا کرتا تھا، جنت میں بھی اسی طرح جاری رہے گا۔ جبیر بن مطعم رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : ’’جو شخص یہ الفاظ کہے : (( سُبْحَانَ اللّٰهِ وَبِحَمْدِهِ، سُبْحَانَكَ اللّٰهُمَّ وَبِحَمْدِكَ أَشْهَدُ أَنْ لَّا إِلٰهَ اِلَّا أَنْتَ أَسْتَغْفِرُكَ وَأَتُوْبُ إِلَيْكَ )) کسی ذکر کی مجلس میں تو یہ مہر کی طرح ہوں گے جو آخر میں لگائی جاتی ہے اور جو انھیں کسی لغو کی مجلس میں کہے تو اس کے لیے کفارہ ہوں گے۔‘‘ [ مستدرک حاکم :1؍537 ، ح : ۱۹۷۰۔ السلسلۃ الصحیحۃ :1؍ 120] عبد اللہ بن عمرو اور ابن مسعود رضی اللہ عنھم کی روایت کے الفاظ ہیں کہ کفارۂ مجلس یہ ہے کہ بندہ یوں کہے : (( سُبْحَانَكَ اللّٰهُمَّ وَبِحَمْدِكَ أَشْهَدُ أَنْ لَّا إِلٰهَ إِلاَّ أَنْتَ وَحْدَكَ لاَ شَرِيْكَ لَكَ أَسْتَغْفِرُكَ وَأَتُوْبُ إِلَيْكَ )) [ صحیح الجامع : ۴۴۸۷ ]