سورة یونس - آیت 9

إِنَّ الَّذِينَ آمَنُوا وَعَمِلُوا الصَّالِحَاتِ يَهْدِيهِمْ رَبُّهُم بِإِيمَانِهِمْ ۖ تَجْرِي مِن تَحْتِهِمُ الْأَنْهَارُ فِي جَنَّاتِ النَّعِيمِ

ترجمہ ترجمان القرآن - مولانا ابوالکلام آزاد

جو لوگ ایمان لائے اور نیک کام کیے تو ان کے ایمان کی وجہ سے (کامیابی و سعادت کی) راہ ان کا پروردگار ان پر کھول دے گا۔ ان کے نیچے نہریں بہہ رہی ہوں گی جبکہ وہ نعمت الہی کے باغوں میں ہوں گے۔

تفسیر القرآن کریم (تفسیر عبدالسلام بھٹوی) - حافظ عبدالسلام بن محمد

يَهْدِيْهِمْ رَبُّهُمْ بِاِيْمَانِهِمْ: یعنی ایمان اور عمل صالح والوں کو ان کے ایمان کی وجہ سے اللہ تعالیٰ دنیا میں صراط مستقیم کی ہدایت، یعنی سیدھے راستے پر چلنے کی توفیق عطا فرماتا ہے، یا مطلب یہ ہے کہ دنیا میں ایمان لانے کی وجہ سے قیامت کے دن اللہ تعالیٰ کی طرف سے ان کی رہنمائی ہو گی، حتیٰ کہ وہ (پل) صراط سے گزر کر سیدھے جنت میں پہنچ جائیں گے۔ ان دونوں معنوں میں باء سببیت کے لیے ہے، یہ باء استعانت کے لیے بھی ہو سکتی ہے، جیسا کہ سورۂ حدید ( ۱۲، ۱۳) میں فرمایا کہ ایمان والے مردوں اور عورتوں کا نور ان کے آگے اور ان کے دائیں طرف دوڑ رہا ہو گا، جب کہ منافق مرد اور عورتیں ان سے درخواست کریں گے کہ ہمیں بھی اپنے نور سے فائدہ اٹھا کر ساتھ چلنے کا موقع دو۔ گویا مومن اپنے نورِ ایمان کی مدد سے چلتے ہوئے جنت میں پہنچ جائیں گے، جب کہ منافق اندھیرے میں رہ جائیں گے۔ تَجْرِيْ مِنْ تَحْتِهِمُ الْاَنْهٰرُ : جنت کی نہروں کی تفصیل کے لیے دیکھیے سورۂ محمد (۱۵)۔ فِيْ جَنّٰتِ النَّعِيْمِ : ان نعمتوں کی تفصیل بیان میں نہیں آ سکتی، فرمایا : ﴿ فَلَا تَعْلَمُ نَفْسٌ مَّاۤ اُخْفِيَ لَهُمْ مِّنْ قُرَّةِ اَعْيُنٍ ﴾ [السجدۃ : ۱۷ ] ’’پس کوئی شخص نہیں جانتا کہ ان کے لیے آنکھوں کی ٹھنڈک میں سے کیا کچھ چھپا کر رکھا گیا ہے۔‘‘ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : (( يَقُوْلُ اللّٰهُ عَزَّوَجَلَّ : أَعْدَدْتُ لِعِبَادِيَ الصَّالِحِيْنَ مَا لَا عَيْنٌ رَأَتْ وَلَا أُذُنٌ سَمِعَتْ وَلَا خَطَرَ عَلٰي قَلْبِ بَشَرٍ )) [ مسلم، الجنۃ و صفۃ نعیمھا، باب صفۃ الجنۃ :4؍2824، عن أبی ھریرۃ رضی اللّٰہ عنہ ]’’اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں، میں نے اپنے صالح بندوں کے لیے وہ کچھ تیار کر رکھا ہے جو نہ کسی آنکھ نے دیکھا، نہ کسی کان نے سنا اور نہ کسی بشر کے دل پر اس کا خیال ہی گزرا۔‘‘