إِلَيْهِ مَرْجِعُكُمْ جَمِيعًا ۖ وَعْدَ اللَّهِ حَقًّا ۚ إِنَّهُ يَبْدَأُ الْخَلْقَ ثُمَّ يُعِيدُهُ لِيَجْزِيَ الَّذِينَ آمَنُوا وَعَمِلُوا الصَّالِحَاتِ بِالْقِسْطِ ۚ وَالَّذِينَ كَفَرُوا لَهُمْ شَرَابٌ مِّنْ حَمِيمٍ وَعَذَابٌ أَلِيمٌ بِمَا كَانُوا يَكْفُرُونَ
تم سب کو بالآخر اسی کی طرف لوٹنا ہے، یہ اللہ کا سچا وعدہ ہے، وہی ہے جو پیدائش شروع کرتا ہے اور پھر اسے دہراتا ہے (یعنی مرنے کے بعد دوبرہ زندہ کرے گا) تاکہ جو لوگ ایمان لائے اور اچھے کام کیے انہیں انصاف کے ساتھ بدلہ دے، باقی رہے وہ لوگ جنہوں نے کفر کی راہ اختیار کی تو انہیں پاداش کفر میں کھولتا ہوا پانی پینے کو ملے گا اور عذاب دردناک
اِلَيْهِ مَرْجِعُكُمْ جَمِيْعًا....: اس میں قیامت، یعنی سب لوگوں کے دوبارہ زندہ ہو کر اللہ کے حضور پیش ہونے کا بیان ہے۔ یہ اللہ کا پکا سچا وعدہ ہے کیونکہ دنیا میں نیک و بد کی جزا و سزا نہ ضروری ہے نہ ممکن، نہ یہاں اس کے لیے مطلوب فرصت میسر ہے۔ اس لیے اللہ تعالیٰ ہر حال میں اپنے سچے وعدے کو پورا کرتے ہوئے تمھیں دوبارہ زندہ کرکے ایمان والوں کو انصاف کے ساتھ جزا دے گا اور کافروں کو ان کے کفر کا بدلہ دے گا۔ اگر کوئی اسے ناممکن سمجھے تو سوچ لے کہ جو ذات تمھیں شروع میں پیدا کرتی ہے، یعنی عدم سے وجود میں لاتی ہے، کیا اس کے لیے یہ مشکل ہے کہ تمھارے مر جانے کے بعد تمھیں دوبارہ زندگی دے۔ مزید دیکھیے سورۂ روم (۲۷) ’’ حَمِيْمٍ ‘‘ وہ پانی جو گرمی کی انتہا کو پہنچا ہوا ہو۔ دیکھیے سورۂ رحمن (۴۴) اور سورۂ محمد (۱۵)۔