فَإِن تَوَلَّوْا فَقُلْ حَسْبِيَ اللَّهُ لَا إِلَٰهَ إِلَّا هُوَ ۖ عَلَيْهِ تَوَكَّلْتُ ۖ وَهُوَ رَبُّ الْعَرْشِ الْعَظِيمِ
(اے پیغمبر) اگر اس پر بھی یہ لوگ سرتابی کریں تو ان سے کہہ دو میرے لیے اللہ کا سہارا بس کرتا ہے۔ کوئی معبود نہیں ہے، مگر صرف اسی کی ذات، میں نے اس پر بھروسہ کیا، وہ (تمام عالم ہستی کی جہانداری کے) عرش عظیم (١) کا خداوندی ہے۔
1۔ فَاِنْ تَوَلَّوْا....: یعنی ایسے مہربان نبی، اس کی مومنوں پر شفقت و رحمت و حرص اور اس قدر سہل دین کے باوجود اگر وہ منہ موڑیں، تو آپ یہ کہیں: ﴿ حَسْبِيَ اللّٰهُ لَاۤ اِلٰهَ اِلَّا هُوَ عَلَيْهِ تَوَكَّلْتُ ﴾ صرف یہ عقیدہ ہی نہ رکھیں، بلکہ برملا اعلان کریں اور اللہ کے کافی ہونے پر اپنی خوشی اور فخر کا اظہار کریں۔ توحید تو یہ ہے کہ خدا حشر میں کہہ دے یہ بندہ دو عالم سے خفا میرے لیے ہے 2۔ حَسْبِيَ اللّٰهُ: ’’ حَسْبِيَ ‘‘ پہلے آنے کی وجہ سے معنی میں حصر پیدا ہو گیا، یعنی مجھے صرف اللہ کافی ہے، خواہ سب لوگ مجھے چھوڑ جائیں۔ ایک شاعر نے کیا خوب کہا ہے کیا ڈر ہے اگر ساری خدائی ہو مخالف کافی ہے اگر ایک خدا میرے لیے ہے بے شک اللہ تعالیٰ نے دنیا میں اسباب بنائے ہیں، ساتھیوں کی مدد سے قوت ملتی ہے اور ایک دوسرے کی مدد کا حکم بھی ہے : ﴿ وَ تَعَاوَنُوْا عَلَى الْبِرِّ وَ التَّقْوٰى ﴾ [ المائدۃ : ۲ ] ’’اور نیکی اور تقویٰ پر ایک دوسرے کی مدد کرو۔‘‘ مگر کافر اور مومن کا یہی فرق ہے کہ دنیاوی اسباب ختم ہونے پر کافر ناامید ہو جاتا ہے اور مشرک کو اپنے معبودوں پر اتنا اعتماد ہو ہی نہیں سکتا جتنا موحد کو ایک اللہ پر ہوتا ہے، اس لیے مومن کبھی نا امید ہو کر کفر کے مقابلے سے دستبردار نہیں ہوتا کافر ہے تو شمشیر پہ کرتا ہے بھروسا مومن ہے تو بے تیغ بھی لڑتا ہے سپاہی اس لیے قرآن و حدیث کی تعلیم کا خلاصہ یہ ہے کہ اسباب و ضروریات مہیا کرنے کی پوری کوشش کرو، وہ جمع ہو جائیں تب بھی ان پر نہیں بلکہ اللہ تعالیٰ پر بھروسا کرو اور ایک بھی سبب مہیا نہ ہو سکے تب بھی صرف اللہ پر بھروسا رکھو جس کے سوا کوئی معبود نہیں اور وہ کوئی عام بادشاہ نہیں، عرش عظیم کا رب ہے، کوئی چیز اس کی سلطنت اور دسترس سے باہر نہیں۔ تمام اسباب ختم ہونے پر ایک اللہ پر اسی اعتماد اور اس کے مطابق اللہ تعالیٰ کی مدد کا مظاہرہ غار ثور میں ہوا، فرمایا : ﴿ اِلَّا تَنْصُرُوْهُ فَقَدْ نَصَرَهُ اللّٰهُ … ﴾ [ التوبۃ : ۴۰ ] اسی کا مظاہرہ جنگ احد کے اختتام پر دشمن کے اجتماع کی خبر پر اہل ایمان کے قول کے وقت ہوا اور اسی کا مظاہرہ دنیا کا ہر سہارا ختم ہونے پر آگ میں پھینکے جانے کے وقت ابراہیم علیہ السلام کے قول ﴿ حَسْبُنَا اللّٰهُ وَ نِعْمَ الْوَكِيْلُ ﴾ کہنے اور بلا اسباب آگ کو گلزار بنا کر اللہ تعالیٰ کی مدد کی صورت میں ہوا۔ دیکھیے سورۂ آل عمران (۱۷۳، ۱۷۴) اور سورۂ بروج میں مذکور اصحاب الاخدود والے لڑکے کے پاس جب تمام اسباب ختم ہو گئے تو اس نے انھی الفاظ کے ہم معنی الفاظ [ اَللّٰهُمَّ اكْفِنِيْهِمْ بِمَا شِئْتَ ] (اے اللہ! مجھے ان سے کافی ہو جا جس چیز کے ساتھ تو چاہے) کے ساتھ دعا کی تو پہاڑ سے گرانے والے خود گر کر مر گئے اور سمندر میں ڈبونے والے خود ڈوب گئے، مگر اس کا کچھ بھی نہ بگڑا۔ [ دیکھیے مسلم، الزھد، باب قصۃ أصحاب الأخدود....: ۳۰۰۵، عن صہیب رضی اللّٰہ عنہ ] اب بھی اگر کوئی یقین کے ساتھ اللہ پر اعتماد کرنے والا یہ دعائیں پڑھے تو اللہ تعالیٰ کی مدد اسی طرح آئے گی، خواہ ساری دنیا اس سے منہ موڑ جائے۔ بندۂ عاجز عبد السلام عرض کرتا ہے کہ یہ ان مبارک دعاؤں میں سے ہے جن کے پڑھنے کا اللہ تعالیٰ نے اپنے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کو قرآن مجید میں ’’قُلْ ‘‘ کے لفظ کے ساتھ حکم دیا ہے، اس لیے ہمیں بھی اپنے صبح و شام کے اذکار میں اسے شامل کرنا چاہیے۔ ابودرداء رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں : ’’جو شخص یہ دعا ﴿ حَسْبِيَ اللّٰهُ لَاۤ اِلٰهَ اِلَّا هُوَ عَلَيْهِ تَوَكَّلْتُ وَ هُوَ رَبُّ الْعَرْشِ الْعَظِيْمِ ﴾ صبح و شام سات سات دفعہ پڑھے، اللہ تعالیٰ اسے تمام فکروں سے کافی ہو جاتا ہے۔‘‘ یہ حدیث رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے تو ثابت نہیں، ہاں ابودرداء رضی اللہ عنہ کے قول کی سند کے راوی اچھے ہیں، البتہ اس میں [ صَادِقًا كَانَ بِهَا اَوْ كَاذِبًا ] کے الفاظ صحیح نہیں، بلکہ منکر ہیں۔ [ دیکھیے سلسلۃ الأحادیث الضعیفۃ و الموضوعۃ : ۵۲۸۶ ] بالفرض اگر صحابی کا قول بھی نہ ہو تو اس کی فضیلت میں اللہ تعالیٰ کافرمان ’’قُلْ ‘‘ ہی کافی ہے۔