رَبَّنَا وَابْعَثْ فِيهِمْ رَسُولًا مِّنْهُمْ يَتْلُو عَلَيْهِمْ آيَاتِكَ وَيُعَلِّمُهُمُ الْكِتَابَ وَالْحِكْمَةَ وَيُزَكِّيهِمْ ۚ إِنَّكَ أَنتَ الْعَزِيزُ الْحَكِيمُ
اور خدایا (اپنے فضل و کرم سے) ایسا کیجیو کہ اس بستی کے بسنے والوں میں تیرا ایک رسول پیدا ہو جو انہی میں سے ہو وہ تیری آیتیں پڑھ کر لوگوں کو سنائے، کتاب اور حکمت کی تعلیم دے، اور (اپنی پیغمبرانہ تربیت سے) ان کے دلوں کو مانجھ دے۔ اے پروردگار ! بلاشبہ تیری ہی ذات ہے جو حکمت والی اور سب پر غالب ہے
یہ ابراہیم اور اسماعیل علیہما السلام کی دعا کا خاتمہ ہے۔ ”رَسُوْلًا“ سے مراد نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم ہیں ، کیونکہ اسماعیل علیہ السلام کی اولاد میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے سوا کوئی دوسرا نبی نہیں ہوا۔ اصحاب رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے آپ سے عرض کیا کہ آپ ہمیں اپنے متعلق بتائیں ، تو آپ نے فرمایا : ’’میں اپنے باپ ابراہیم علیہ السلام کی دعا اور عیسیٰ علیہ السلام کی بشارت ہوں اور میری والدہ کو جب میرا حمل ٹھہرا تو انھوں نے دیکھا کہ ان (کے بدن) سے ایک نور نکلا جس سے بصریٰ روشن ہو گیا اور بصریٰ شام کی سرزمین سے ہے۔‘‘ (مستدرك : ۲؍۶۰۰، ح : ۴۱۷۴) اسے امام حاکم نے روایت کیا، امام ذہبی نے صحیح کہنے میں ان کی موافقت کی۔ شیخ البانی نے اسے صحیح کہا۔ [سلسله الصحيحه : ۱۵۴۵] شام کی تخصیص اس لیے ہے کہ آخر زمانہ میں شام ہی اسلام کا مرکز بنے گا، عیسیٰ علیہ السلام کا نزول بھی شام میں ہو گا اور حدیث میں جس گروہ کے قیامت تک حق پر رہنے کی خبر دی گئی ہے وہ بھی شام میں ہو گا۔ ابن کثیر میں صحیح بخاری کے حوالے سے ہے : (( وَهُمْ بِالشَّامِ )) ’’وہ شام میں ہوں گے۔‘‘ [بخاری: ۳۶۴۱، ۷۴۶۰] ”الْكِتٰبَ“ سے مراد قرآن مجید اور ”الْحِكْمَةَ“ سے مراد حدیث پاک ہے اور اسلام کے بنیادی اصول یہی دو ہیں ۔ پاک کرنے سے مراد شرک اور گناہوں سے پاک کرے اور اطاعت و اخلاص کی تعلیم دے۔ ’’ اِنَّكَ اَنْتَ ‘‘ ضمیر مکرر لانے کے علاوہ ”الْعَزِيْزُ“ پر الف لام سے دوہرا حصر پیدا ہو گیا، اس لیے ’’تو ہی‘‘ ترجمہ کیا گیا۔