وَإِذَا مَا أُنزِلَتْ سُورَةٌ فَمِنْهُم مَّن يَقُولُ أَيُّكُمْ زَادَتْهُ هَٰذِهِ إِيمَانًا ۚ فَأَمَّا الَّذِينَ آمَنُوا فَزَادَتْهُمْ إِيمَانًا وَهُمْ يَسْتَبْشِرُونَ
اور جب ایسا ہوتا ہے کہ (اللہ کی طرف سے) قرآن کی کوئی سورت اترتی ہے تو ان (منافقوں) میں کچھ لوگ ہیں جو (انکار و شرارت کی راہ سے) کہتے ہیں تم لوگوں میں سے کس کا ایمان اس نے زیادہ کردیا؟ تو حقیقت یہ ہے کہ جو ایمان رکھتے ہیں ان کا ایمان تو ضرور زیادہ کردیا اور وہ اس پر خوشیاں منار رہے ہیں۔
1۔ وَ اِذَا مَاۤ اُنْزِلَتْ سُوْرَةٌ....: ’’ يَسْتَبْشِرُوْنَ‘‘ حروف کی زیادتی معنی کی زیادتی پر دلالت کرتی ہے، ایسی زبردست خوشی جس کے آثار بشرے پر بھی ظاہر ہوں۔’’سُوْرَةٌ ‘‘ سے مراد پوری سورت بھی ہو سکتی ہے اور آیات کا کوئی ٹکڑا بھی۔ کسی بھی سورت کے نزول پر اسے قبول کرنے میں اہل ایمان اور اہل نفاق کا واضح فرق ہوتا ہے، بیج کی عمدگی زمین کی قابلیت کے بغیر فائدہ مند نہیں ہوتی، چنانچہ منافقین ایک دوسرے سے بطور استہزا و مذاق یا بعض کمزور ایمان والے مسلمانوں کو شک میں ڈالنے کے لیے پوچھتے ہیں کہ ان آیات کے ساتھ تم میں سے کس کے ایمان میں اضافہ ہوا ہے؟ فرمایا کہ اہل ایمان کے ایمان میں تو ان سے اضافہ اور زیادتی ہوتی ہے، دل کے علم اور یقین میں بھی، زبانی تصدیق میں بھی اور عمل میں بھی اور ان تینوں کا نام ایمان ہے۔ ’’وَ هُمْ يَسْتَبْشِرُوْنَ‘‘ اور وہ بہت ہی خوش ہوتے ہیں، جس کے آثار ان کے چہرے پر بھی نمایاں ہوتے ہیں اور وہ لوگ جن کے دلوں میں کفر اور نفاق کا مرض ہے وہ پہلی سورتوں اور آیات ہی کے منکر تھے، جب اس سے بھی انکار کیا تو کفر کا ایک اور ردّہ ان کے دلوں پر چڑھ گیا اور ان کی کفر پر موت کا باعث بن گیا۔ 2۔ یہ آیت اور قرآن مجید کی کئی اور آیات واضح الفاظ میں ایمان کے زیادہ ہونے کی صراحت فرما رہی ہیں۔ امام بخاری رحمہ اللہ نے اپنی صحیح میں کتاب الایمان کے شروع میں آٹھ آیات اور پھر بہت سی احادیث ذکر فرمائی ہیں جو صاف ایمان کی کمی اور زیادتی پر دلالت کرتی ہیں اور صرف عمل کے لحاظ ہی سے نہیں، بلکہ نفس تصدیق اور یقین میں بھی کمی اور زیادتی پر دلالت کرتی ہیں۔ تعجب ہے ان شیوخ الحدیث والتفسیر پر جو ساری عمر صحیح بخاری اور قرآن مجید پڑھاتے ہیں مگر ایمان کے زیادہ یا کم ہونے کی آیات و احادیث آتی ہیں تو یا تو انھیں مذہب کے خلاف کہہ کر رد کر دیتے ہیں، یا ایسی تاویل کرتے ہیں جو آیات و احادیث کے منشا کے صریح خلاف اور تاویل کے بجائے تحریف کہلانے کے زیادہ لائق ہے۔ اس وقت تو ان کے سامنے شاید کوئی نہ بول سکے مگر وہ پاک پروردگار جو آیات کے ساتھ مومنوں کے دلوں میں ایمان ویقین بڑھاتا ہے، اس کے سامنے کیا تاویل کریں گے؟ اور وہ حضرات اللہ تعالیٰ کو کیا جواب دیں گے جو کہتے ہیں کہ میرا اور ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کا اور میرا اور جبریل علیہ السلام کا ایمان ایک جیسا ہے، کیونکہ ایمان سب کا برابر ہے، اس میں نہ کمی ہوتی ہے نہ زیادتی۔ وہ خود ہی سوچیں کہ کیا انھیں اللہ اور اس کے رسول اور آخرت کا وہ یقین حاصل ہے جو ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ اور جبریل علیہ السلام کو حاصل تھا ؟