سورة التوبہ - آیت 123

يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا قَاتِلُوا الَّذِينَ يَلُونَكُم مِّنَ الْكُفَّارِ وَلْيَجِدُوا فِيكُمْ غِلْظَةً ۚ وَاعْلَمُوا أَنَّ اللَّهَ مَعَ الْمُتَّقِينَ

ترجمہ ترجمان القرآن - مولانا ابوالکلام آزاد

مسلمانو ! ان کافروں سے جنگ کرو جو تمہارے آس پاس (پھیلے ہوئے) ہیں اور چاہیے کہ وہ (جنگ میں) تمہاری سختی محسوس کریں (کہ بغیر اس کے جنگ جنگ نیہں) اور یاد رکھو اللہ ان کا ساتھی ہے جو (ہر حال میں) متقی ہوتے ہیں۔

تفسیر القرآن کریم (تفسیر عبدالسلام بھٹوی) - حافظ عبدالسلام بن محمد

يٰاَيُّهَا الَّذِيْنَ اٰمَنُوْا قَاتِلُوا الَّذِيْنَ يَلُوْنَكُمْ مِّنَ الْكُفَّارِ: یعنی کفار میں سے جو لوگ تم سے جتنے زیادہ قریب ہیں اتنا ہی ان سے پہلے جہاد کرو، پہلے انھیں اسلامی قلمرو میں شامل کرنے کے بعد ان سے جہاد کرو جو ان کی بہ نسبت دور ہیں، کیونکہ ہر کام میں آسان سے آسان اور بہتر سے بہتر ہونے کا خیال سب سے پہلے رکھا جاتا ہے۔ اپنی سرحد سے ملنے والوں کے ساتھ لڑائی میں نہ زیادہ سواریوں کی ضرورت ہے نہ زیادہ اخراجات کی، نہ دور کے سفر کی مشقت ہے، نہ ان کے احوال سے باخبر رہنے کے لیے زیادہ محنت اور وسائل کی، کیونکہ آپ ان کے محل وقوع، ان کے مراکز قوت اور ان کی کمزوریوں سے خوب واقف ہیں۔ پھر دور والے دشمن سے لڑائی میں پیچھے سے اپنے ملک پر کسی دشمن کے حملے یا اندرونی خلفشار کا جو خطرہ رہتا ہے قریب والوں کے ساتھ جنگ میں وہ بھی نہیں ہو گا، بلکہ اپنی پشت محفوظ رہے گی۔ بے شک تمام مشرکین سے لڑنے کا حکم ہے، جیسا کہ فرمایا : ﴿ وَ قَاتِلُوا الْمُشْرِكِيْنَ كَآفَّةً ﴾ [ التوبۃ : ۳۶ ] مگر ترتیب کو ملحوظ رکھنا لازم ہے۔ دعوت میں بھی یہی ترتیب ہے، پہلے گھر والے، پھر خاندان، پھر قبیلہ، پھر شہر، پھر اپنا ملک، پھر تمام دنیا اور جہاد میں بھی یہی ترتیب ہے، کیونکہ جہاد بھی دعوت ہی کا ایک حصہ ہے۔ چنانچہ اسی ترتیب کے ساتھ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے پہلے اپنے خاص قبیلہ قریش سے جنگ کی، پھر جزیرۂ عرب کے دوسرے قبائل سے، پھر بنی قریظہ اور بنی نضیر سے، پھر خیبر اور فدک کے اہل کتاب سے جو مدینہ کے اردگرد تھے، پھر مکہ فتح ہوا اور پھر یمن اور بحرین حتیٰ کہ پورا جزیرۂ عرب مسلمان ہو گیا۔ جب ان سے فارغ ہوئے تو غزوۂ تبوک کی مہم پر ملک شام کے نصاریٰ سے جہاد کے لیے روانہ ہوئے۔ یہی ترتیب آپ کے بعد ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ ، عمر فاروق شہید محراب رضی اللہ عنہ اور دوسرے خلفاء نے ملحوظ رکھی۔ چنانچہ ان کے زمانے میں پہلے ملک شام اور عراق و فارس فتح کیے گئے، پھر مصر، پھر مشرق کی طرف ہند، خراسان، کاشغر (چین) اور مغرب کی طرف افریقہ، اندلس اور فرانس، غرض مشرق سے مغرب تک اسلام کا پھریرا لہرانے لگا۔ والحمد للہ! اللہ تعالیٰ مسلمانوں کو دوبارہ جہاد کے ساتھ کفار کے تسلط کو ختم کرکے اپنے موجودہ ممالک میں اور دنیا بھر کے ممالک میں اللہ کے دین کو غالب کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔ (آمین) وَ لْيَجِدُوْا فِيْكُمْ غِلْظَةً: لازم ہے کہ تم حملہ کرو تو اس کی شدت کفار کو واضح طور پر محسوس ہو اور اگر کبھی وہ حملہ کرنے کی غلطی کریں تو جواب میں انھیں کسی جگہ نرمی اور کمزوری نہ مل سکے۔ کیونکہ ایمان کا کمال ہی مسلمان بھائی کے لیے نرم ہونا اور کفار کے لیے سخت ہونا ہے، جیسا کہ اللہ تعالیٰ نے صحابہ کرام رضی اللہ عنھم کی خوبی بتائی : ﴿ اَشِدَّآءُ عَلَى الْكُفَّارِ رُحَمَآءُ بَيْنَهُمْ ﴾ [الفتح : ۲۹ ] ’’کافروں پر بہت سخت، آپس میں نہایت رحم دل۔‘‘ اور مجاہدین کی شان بیان فرمائی : ﴿ اَذِلَّةٍ عَلَى الْمُؤْمِنِيْنَ اَعِزَّةٍ عَلَى الْكٰفِرِيْنَ ﴾ [ المائدۃ : ۵۴ ] ’’مومنوں پر بہت نرم ہوں گے، کافروں پر بہت سخت۔‘‘ وَ اعْلَمُوْا اَنَّ اللّٰهَ مَعَ الْمُتَّقِيْنَ: اس کا مشاہدہ پوری تاریخ اسلام میں ہوتا رہا ہے۔ مسلمانوں کے خلفاء و ملوک اور امراء و عوام جب متقی ہوتے اللہ تعالیٰ کی خاص معیت و نصرت ان کے ساتھ ہوتی اور ہر جگہ فتح ان کے قدم چومتی اور جب وہ ظالم یا فاسق ہوتے اور عیش و عشرت یا باہمی لڑائیوں میں مصروف ہوتے، تو اللہ کی مدد اٹھ جاتی اور دشمن ان کے علاقوں پر قابض ہو جاتے۔ اب بھی اللہ تعالیٰ کی معیت، ساتھ اور نصرت و تائید حاصل کرنی ہے تو وہ تقویٰ کے ساتھ ہی حاصل ہو گی، محض سائنسی ترقی یا کثرت تعداد سے کبھی نہیں۔