وَعَلَى الثَّلَاثَةِ الَّذِينَ خُلِّفُوا حَتَّىٰ إِذَا ضَاقَتْ عَلَيْهِمُ الْأَرْضُ بِمَا رَحُبَتْ وَضَاقَتْ عَلَيْهِمْ أَنفُسُهُمْ وَظَنُّوا أَن لَّا مَلْجَأَ مِنَ اللَّهِ إِلَّا إِلَيْهِ ثُمَّ تَابَ عَلَيْهِمْ لِيَتُوبُوا ۚ إِنَّ اللَّهَ هُوَ التَّوَّابُ الرَّحِيمُ
اور (اسی طرح) ان تین شخصوں پر بھی (اس کی رحمت لوٹ آئی) جو (معلق حالت میں) چھوڑ دیئے گئے تھے (اور اس وقت لوٹ آئی) جبکہ زمین اپنی ساری وسعت پر بھی ان کے لیے تنگ ہوگئی تھی، اور وہ خود بھی اپنی جان سے تنگ آگئے تھے اور انہوں نے جان لیا تھا کہ اللہ سے بھاگ کر انہیں کوئی پناہ نہیں مل سکتی مگر خود اسی کے دامن میں، پس اللہ (اپنی رحمت سے) ان پر لوٹ آیا تاکہ وہ رجوع کریں بلا شبہ اللہ ہی ہے بڑا توبہ قبول کرنے والا، بڑا ہی رحمت والا۔
1۔ وَ عَلَى الثَّلٰثَةِ الَّذِيْنَ خُلِّفُوْا....: ’’خُلِّفُوْا ‘‘ کا لفظی معنی اگرچہ پیچھے چھوڑے گئے ہے، مگر یہاں مراد یہ ہے کہ جن کا فیصلہ مؤخر کر دیا گیا۔ اسی بات کا تذکرہ اس سے پہلے آیت (۱۰۷) ﴿ وَ اٰخَرُوْنَ مُرْجَوْنَ لِاَمْرِ اللّٰهِ ﴾ میں گزرا ہے۔ ’’وَ عَلَى الثَّلٰثَةِ ‘‘ کا عطف ’’عَلَى النَّبِيِّ ‘‘ پر ہے (یعنی انصار و مہاجرین پر مہربان ہونے اور انھیں معاف کرنے میں) وہ تین شخص بھی داخل ہوئے جن پر پچاس دن میں ایسی حالت گزری کہ موت سے بھی بدتر۔ (موضح) یہ تین صحابہ تھے کعب بن مالک، مرارہ بن ربیع اور ہلال بن امیہ رضی اللہ عنھم ، اس سے قبل تقریباً ہر غزوے میں یہ شریک ہوتے رہے، اس غزوۂ تبوک میں صرف سستی کی وجہ سے شریک نہیں ہو سکے، بعد میں انھیں اپنی غلطی کا احساس ہوا تو سوچا کہ ایک غلطی (پیچھے رہنے کی) تو ہو ہی گئی ہے، لیکن اب منافقین کی طرح رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں جھوٹا عذر پیش کرنے کی غلطی نہیں کریں گے۔ چنانچہ حاضر خدمت ہو کر اپنی غلطی کا صاف اعتراف کر لیا اور اس کی سزا کے لیے اپنے آپ کو پیش کر دیا۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کے معاملے کو اللہ تعالیٰ کے سپرد کر دیا کہ وہی ان کے بارے میں کوئی حکم نازل فرمائے گا، تاہم اس دوران میں آپ نے تمام صحابہ کو ان سے بائیکاٹ کا حکم دے دیا، حتیٰ کہ بات چیت تک سے روک دیا اور چالیس راتوں کے بعد حکم دیا کہ وہ اپنی بیویوں سے بھی دور رہیں۔ یہ وہ وقت تھا جس کا نقشہ اللہ تعالیٰ نے تین جملوں میں کھینچا ہے کہ زمین اپنی وسعت کے باوجود ان پر تنگ ہو گئی اور خود ان کی جانیں ان پر تنگ ہو گئیں اور انھوں نے یقین کر لیا کہ بے شک اللہ سے پناہ کی کوئی جگہ اس کی جناب کے سوا نہیں۔ آخر مزید دس دن گزرنے کے بعد ان کی توبہ قبول کر لی گئی اور مذکورہ آیت اتری۔ کعب بن مالک رضی اللہ عنہ نے یہ واقعہ نہایت فصاحت و بلاغت کے ساتھ اپنی قلبی کیفیت کی بہترین ترجمانی کرتے ہوئے بڑی لمبی حدیث میں بیان فرمایا ہے جو صحیح بخاری کی کتاب المغازی اور مسلم کی کتاب التوبہ میں مذکور ہے۔ تفسیر ابن کثیر میں بھی اسے مفصل نقل کیا گیا ہے۔ 2۔ اِنَّ اللّٰهَ هُوَ التَّوَّابُ الرَّحِيْمُ: معلوم ہوا کہ توبہ کا قبول ہونا محض اللہ تعالیٰ کا فضل و کرم ہے، ورنہ اس پر کسی کا زور نہیں۔