وَمَا كَانَ اسْتِغْفَارُ إِبْرَاهِيمَ لِأَبِيهِ إِلَّا عَن مَّوْعِدَةٍ وَعَدَهَا إِيَّاهُ فَلَمَّا تَبَيَّنَ لَهُ أَنَّهُ عَدُوٌّ لِّلَّهِ تَبَرَّأَ مِنْهُ ۚ إِنَّ إِبْرَاهِيمَ لَأَوَّاهٌ حَلِيمٌ
اور ابراہیم نے جو اپنے باپ کے لیے بخشائش کی آرزو کی تھی تو صرف اس وجہ سے کہ اپنا وعدہ پورا کردے جو وہ اس سے کرچکا تھا (یعنی اس نے کہا تھا میرے بس میں اور تو کچھ نہیں، دعا ہے تو اس سے بارز نہیں رہوں گا) لیکن جب اس پر واضح ہوگیا کہ وہ اللہ (کی سچائی) کا دشمن ہے (اور کبھی حق کی راہ اختیار کرنے والا نہیں) تو اس سے بیزار ہوگیا۔ بلاشبہ ابراہیم بڑا ہی دردمند بڑا ہی بردبار (انسان) تھا۔
1۔ وَ مَا كَانَ اسْتِغْفَارُ اِبْرٰهِيْمَ لِاَبِيْهِ....: علی رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ میں نے ایک آدمی کو سنا کہ وہ اپنے ماں باپ کے لیے استغفار کر رہا تھا، جب کہ وہ مشرک تھے۔ میں نے کہا تم ان کے لیے بخشش کی دعا کر رہے ہو جب کہ وہ مشرک تھے، تو اس نے کہا، کیا ابراہیم علیہ السلام نے اپنے باپ کے لیے استغفار نہیں کیا تھا؟ چنانچہ میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آیا اور آپ سے یہ بات ذکر کی تو یہ آیت نازل ہوئی : ﴿ وَ مَا كَانَ اسْتِغْفَارُ اِبْرٰهِيْمَ لِاَبِيْهِ اِلَّا عَنْ مَّوْعِدَةٍ وَّعَدَهَاۤ اِيَّاهُ ﴾ ’’اور ابراہیم کا اپنے باپ کے لیے بخشش مانگنا نہیں تھا مگر اس وعدہ کی وجہ ہے جو اس نے اس سے کیا تھا۔‘‘ [ نسائی، الجنائز، باب النہی عن الاستغفار للمشرکین : ۲۰۳۸، و حسنہ الألبانی ]ابراہیم علیہ السلام نے اپنے مشرک باپ سے یہ وعدہ اس وقت کیا تھا جب اس نے انھیں توحید کی دعوت کی وجہ سے گھر سے نکال دیا تھا۔ دیکھیے سورۂ مریم (۴۷) چنانچہ حسبِ وعدہ ابراہیم علیہ السلام نے اپنے باپ کے لیے دعائے مغفرت کی۔ دیکھیے سورۂ شعراء (۸۶) قیامت کو بھی سفارش کریں گے کہ یا اللہ! میرے باپ کے جہنم میں ہونے سے زیادہ میری کیا رسوائی ہے تو حکم ہو گا کہ اپنے پاؤں کی طرف دیکھو، دیکھیں گے تو ان کے والد کی شکل گندگی میں آلودہ بجو کی بنا دی جائے گی اور فرشتے اسے پاؤں سے پکڑ کر جہنم میں پھینک دیں گے کہ نہ کوئی اسے پہچانے کہ یہ ابراہیم علیہ السلام کا والد ہے اور نہ ان کی رسوائی ہو۔ اللہ تعالیٰ نے اپنے خلیل کو رسوائی سے بچا لیا مگر مشرک کو جہنم سے نہیں بچایا۔ [دیکھیے بخاری، أحادیث الأنبیاء، باب قول اللّٰہ تعالٰی : ﴿واتخذ اللّٰہ إبراھیم خلیلا ....﴾ : ۳۳۵۰ ] 2۔ فَلَمَّا تَبَيَّنَ لَهٗۤ اَنَّهٗ عَدُوٌّ لِّلّٰهِ تَبَرَّاَ مِنْهُ: یعنی قیامت کے دن سفارش کے بعد اس کے ساتھ اللہ تعالیٰ کے سلوک کو دیکھ کر جب انھیں اپنے والد کا ابدی جہنمی، شرف انسانیت سے محروم اور اللہ تعالیٰ کا دشمن ہونا خوب واضح ہو گیا تو وہ اس سے بری اور لاتعلق ہو گئے، کیونکہ اللہ تعالیٰ کا خلیل اپنے خلیل کے دشمن سے دوستی یا تعلق کیسے رکھ سکتا ہے، چنانچہ ان کے دل میں جو تعلق باقی تھا وہ بھی ختم ہو گیا۔ 3۔ اگر کسی کا کوئی کافر رشتے دار یا دوست فوت ہو جائے تو مسلمان اس کی تجہیز و تکفین میں شریک تو ہو سکتا ہے، مگر اس کے لیے دعائے مغفرت نہیں کر سکتا۔ (ابن کثیر) 4۔ اِنَّ اِبْرٰهِيْمَ لَاَوَّاهٌ حَلِيْمٌ: ’’ لَاَوَّاهٌ ‘‘ کا معنی بہت آہ وزاری کرنے والا ہے اور یہ دل کی نرمی کی علامت ہے، یعنی وہ اللہ کے حضور بہت آہیں بھرنے والے، بڑے حلم والے تھے۔ یہ ابتدا میں اپنے والد کے حق میں ان کی نرمی اور استغفار کی وجہ بیان فرمائی ہے کہ ابراہیم علیہ السلام تھے ہی ایسے کہ اگر کوئی سختی سے پیش آتا تو اسے نرمی سے جواب دیتے۔