وَإِذْ يَرْفَعُ إِبْرَاهِيمُ الْقَوَاعِدَ مِنَ الْبَيْتِ وَإِسْمَاعِيلُ رَبَّنَا تَقَبَّلْ مِنَّا ۖ إِنَّكَ أَنتَ السَّمِيعُ الْعَلِيمُ
اور (پھر دیکھو وہ کیسا عظیم الشان اور انقلاب انگیز وقت تھا) جب ابراہیم خانہ کعبہ کی نیو ڈال رہا تھا اور اس معیل بھی اس کے ساتھ شریک تھا (ان کے ہاتھ پتھر چن رہے تھے اور دل و زبان پر یہ دعا طاری تھی) اے پروردگار ! ہمارا یہ عمل تیرے حضور قبول ہو ! بلاشبہ تو ہی ہے جو دعاؤں کا سننے والا اور (مصالح عالم کا) جاننے والا ہے
”الْقَوَاعِدَ“ بنیادیں ۔ ابنِ عباس رضی اللہ عنہما نے فرمایا، یعنی بیت اللہ کی وہ بنیادیں جو اس سے پہلے موجود تھیں ۔ [تفسیر عبد الرزاق بسند صحیح ] اس سے معلوم ہوا کہ بیت اللہ پہلے تعمیر ہو چکا تھا، اب از سر نو اس کی بنیادیں اٹھائی جا رہی تھیں ۔ سورۂ حج (۲۶) میں ہے کہ اللہ تعالیٰ نے ابراہیم علیہ السلام کے لیے بیت اللہ کی جگہ متعین فرمائی۔ مزید دیکھیے سورۂ آل عمران (۹۶) اس کے بعد بیت اللہ کئی دفعہ تعمیر ہوا۔ جاہلیت میں جب سیلاب سے کعبہ منہدم ہو گیا تو قریش نے دوبارہ اس کی تعمیر کی، مگر مال کی کمی کی وجہ سے اس کا کچھ حصہ باہر چھوڑ دیا، جسے حطیم کہتے ہیں ۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم بھی اس کے لیے پتھر اٹھا کر لاتے رہے۔ ابنِ اسحاق کے مطابق آپ کی عمر اس وقت ۳۵ سال تھی، پھر آپ ہی نے قریش کے جھگڑے میں حجر اسود کا فیصلہ فرمایا اور اسے اس کے مقام پر اپنے دست مبارک سے رکھا۔ دورِ اسلام میں پہلی مرتبہ عبد اللہ بن زبیر رضی اللہ عنہما نے اسے ابراہیم علیہ السلام والی بنیادوں پر تعمیر کیا، اس کے بعد عبد الملک کے دورِ خلافت میں حجاج بن یوسف نے اسے گرا کر دوبارہ اسی طرح بنا دیا جس طرح جاہلیت میں بنایا گیا تھا۔ اس کے بعد مختلف بادشاہ اسی عمارت کی مرمت و تزئین کرتے رہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : ’’کعبہ کو حبشیوں میں سے ایک پتلی پنڈلیوں والا برباد کرے گا۔‘‘ [ بخاری، الحج، باب قول اللہ تعالٰی : ﴿ جعل اللہ الکعبۃ .... ﴾ : ۱۵۹۱۔ مسلم، الفتن، باب لا تقوم الساعۃ .... :58؍2909]