وَقُلِ اعْمَلُوا فَسَيَرَى اللَّهُ عَمَلَكُمْ وَرَسُولُهُ وَالْمُؤْمِنُونَ ۖ وَسَتُرَدُّونَ إِلَىٰ عَالِمِ الْغَيْبِ وَالشَّهَادَةِ فَيُنَبِّئُكُم بِمَا كُنتُمْ تَعْمَلُونَ
اور (اے پیغمبر) تم کہو عمل کیے جاؤ، اب اللہ دیکھے گا کہ تمہارے عمل کیسے ہوتے ہیں اور اللہ کا رسول بھی دیھکے گا اور مسلمان بھی دیکھیں گے اور (پھر) تم اسی کی طرف لوٹائے جاؤ گے جس کے علم سے نہ تو کوئی ظاہر بات پوشیدہ ہے نہ کوئی چھپی بات، پس وہ تمہیں بتلائے گا کہ جو کچھ کرتے رہے ہو اس کی حقیقت کیا تھی۔
1۔ وَ قُلِ اعْمَلُوْا فَسَيَرَى اللّٰهُ عَمَلَكُمْ....: یعنی اب اگر قصور ہو گیا تو آئندہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور خلفاء کے دور میں جو جہاد ہونے والے ہیں ان میں خوب کام کر لو۔ (موضح) اللہ تعالیٰ تو پہلے ہی گزشتہ، موجودہ اور آئندہ کے تمام احوال سے پوری طرح باخبر ہے مگر تم عمل کرو، تمھارے عمل کو وجود میں آتا ہوا اللہ تعالیٰ بھی دیکھ لے گا، اس کا رسول بھی اور ان کے زمانے کے مومن اور بعد میں آنے والے خلفاء اور اہل ایمان بھی، کیونکہ آدمی اچھا یا برا جو کام بھی کرتا ہے اس کی اسی طرح کی شہرت ہر طرف پھیل جاتی ہے، خصوصاً مومن اس سے بے خبر نہیں رہتے۔ اس لیے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : (( اَنْتُمْ شُهَدَاءُ اللّٰهِ فِي الْاَرْضِ )) [النسائی، الجنائز، باب الثناء : ۱۹۳۴، ۱۹۳۵] ’’تم زمین میں اللہ تعالیٰ کے گواہ ہو۔‘‘ یہ الفاظ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک جنازے کے گزرنے پر لوگوں کی اچھی تعریف اور دوسرے کے گزرنے پر لوگوں کے اس کی بری تعریف کرنے پر ارشاد فرمائے اور پہلے کے لیے جنت کی بشارت دی اور دوسرے کے لیے آگ کی۔ ایک روایت میں ہے : (( اَلْمُؤْمِنُوْنَ شُهَدَاءُ اللّٰهِ فِي الْاَرْضِ)) ’’مومن زمین میں اللہ کے گواہ ہیں۔‘‘ [ بخاری، الجنائز، باب ثناء الناس علی المیت : ۱۳۶۷ ] 2۔ وَ سَتُرَدُّوْنَ اِلٰى عٰلِمِ الْغَيْبِ وَ الشَّهَادَةِ....: یعنی اگر بالفرض لوگوں کو تمھاری حقیقت کی خبر نہ ہو سکی تو آخر کار تمھیں واپس عالم الغیب والشہادہ کے پاس جانا ہے، وہاں کچھ مخفی نہیں رہے گا۔