خُذْ مِنْ أَمْوَالِهِمْ صَدَقَةً تُطَهِّرُهُمْ وَتُزَكِّيهِم بِهَا وَصَلِّ عَلَيْهِمْ ۖ إِنَّ صَلَاتَكَ سَكَنٌ لَّهُمْ ۗ وَاللَّهُ سَمِيعٌ عَلِيمٌ
(اے پیغمبر) ان لوگوں کے مال سے صدقات قبول کرلو، تم قبول کر کے انہیں (بخل و طمع کی برائیوں سے) پاک اور (دل کی نیکیوں کی ترقی سے) تربیت یافتہ کردو، نیز ان کے لیے دعائے خیر کرو، بلا شبہ تمہاری دعا ان کے دلوں کے لیے راحت و سکون ہے، اور اللہ (دعائیں) سننے والا اور (سب کچھ) جاننے والا ہے۔
1۔ خُذْ مِنْ اَمْوَالِهِمْ صَدَقَةً: ابن عباس رضی اللہ عنھما کی روایت جو پچھلی آیت کی تفسیر میں ذکر ہوئی، اس میں ہے کہ جب ان لوگوں کی توبہ قبول ہو گئی تو یہ اپنے اموال لے کر آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئے کہ ہمارا صدقہ قبول فرمایے اور ہمارے لیے استغفار کیجیے، مگر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے صدقہ قبول کرنے سے انکار فرما دیا کہ مجھے اللہ تعالیٰ نے حکم نہیں دیا، اس پر یہ آیت نازل ہوئی اور آپ نے ان کا صدقہ قبول فرما لیا۔ 2۔ اس حکم میں ان اعتراف گناہ کرنے والوں کا صدقہ قبول کرنے کے ساتھ تمام مسلمانوں سے بھی صدقہ وصول کرنے کا حکم ہے، کیونکہ زکوٰۃ اسلام کے بنیادی ارکان خمسہ میں شامل ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی عدم موجودگی میں ان کے نائب کو صدقہ ادا کرنا ہو گا۔ بعض لوگوں نے اس آیت سے استدلال کیا کہ زکوٰۃ وصول کرنے کا حق صرف رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو تھا، آپ کے بعد کسی کا یہ حق نہیں۔ چنانچہ آپ کی وفات کے بعد بعض لوگوں نے ابوبکر رضی اللہ عنہ کو زکوٰۃ دینے سے انکار کر دیا، مگر ابوبکر رضی اللہ عنہ اور تمام صحابہ نے ان کی تاویل کو رد کیا اور ان سے اس وقت تک جنگ کی جب تک انھوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے خلیفہ کو زکوٰۃ ادا نہیں کی۔ اس موقع پر ابوبکر رضی اللہ عنہ نے اپنا وہ مشہور قول ارشاد فرمایا تھا کہ اللہ کی قسم! اگر یہ لوگ مجھ سے ایک عناق (بکری کی پٹھوری) اور ایک روایت میں ہے کہ ایک عقال (ایک رسی یا ایک سال کی زکوٰۃ) روکیں گے جو وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو ادا کرتے تھے تو میں ہر صورت ان کے نہ دینے کی وجہ سے ان سے جنگ کروں گا۔ 3۔ تُطَهِّرُهُمْ وَ تُزَكِّيْهِمْ بِهَا: اس سے زکوٰۃ اور صدقات کی فضیلت ظاہر ہے کہ اس کے ذریعے سے انسان کے مال کو اور اس کی نیت اور عمل کو طہارت اور پاکیزگی حاصل ہوتی ہے اور دونوں میں اضافہ ہوتا ہے، کیونکہ ’’زَكَا يَزْكُوْ‘‘ جس سے ’’ تُزَكِّيْهِمْ ‘‘ مشتق ہے، پاک ہونے اور بڑھنے دونوں معنی میں آتا ہے۔ ویسے بھی صدقہ کو صدقہ کہنے کی ایک وجہ یہ بھی ہے کہ یہ ایمان کا دعویٰ کرنے والے کے صدق کو ظاہر کرتا ہے۔ 4۔ وَصَلِّ عَلَيْهِمْ اِنَّ صَلٰوتَكَ سَكَنٌ لَّهُمْ....: ’’صَلَاةٌ ‘‘ کا معنی نماز، رحمت اور دعا بھی آتا ہے، یہاں اللہ تعالیٰ نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو صدقہ پیش کرنے والوں کے لیے مغفرت و رحمت کی دعا کا حکم دیا کہ اس سے ان کے دل کو سکون حاصل ہوتا ہے، اس لیے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا معمول تھا کہ جب کوئی صدقہ (فرض زکوٰۃ یا نفل صدقہ) لے کر آتا تو آپ اس کے لیے دعا فرماتے، جیسا کہ پیچھے آیت (۹۹) کی تفسیر میں باحوالہ گزرا ہے کہ آپ نے ابو اوفی رضی اللہ عنہ کے زکوٰۃ لانے پر [ اَللّٰهُمَّ صَلِّ عَلٰی آلِ اَبِيْ اَوْفٰی ] کہہ کر ان کے ساتھ ان کے پورے اہل کو بھی دعا میں شامل فرما لیا۔ ﴿ وَ اللّٰهُ سَمِيْعٌ عَلِيْمٌ ﴾ یعنی اللہ تعالیٰ جو وہ کہہ رہے ہیں یا جو ان کے دل میں ہے سب سے واقف ہے، کیونکہ وہ سمیع بھی ہے علیم بھی۔