وَمِنَ الْأَعْرَابِ مَن يَتَّخِذُ مَا يُنفِقُ مَغْرَمًا وَيَتَرَبَّصُ بِكُمُ الدَّوَائِرَ ۚ عَلَيْهِمْ دَائِرَةُ السَّوْءِ ۗ وَاللَّهُ سَمِيعٌ عَلِيمٌ
اور اعرابیوں ہی میں ایسے لوگ ہیں کہ جو کچھ (راہ حق میں) خرچ کرتے ہیں اسے (اپنے اوپر) جرمانہ سمجھتے ہیں اور منتظر ہیں کہ تم پر کوئی گردش آجائے (تو الٹ پڑیں) حقیقت یہ ہے کہ بری گردش کے دن خود انہی پر آنے والے ہیں اور اللہ (سب کچھ) سننے والا (سب کچھ) جاننے والا ہے۔
1۔ وَ مِنَ الْاَعْرَابِ مَنْ يَّتَّخِذُ....: ’’مَغْرَمًا ‘‘ سے مراد تاوان، چٹی اور جرمانہ ہے، قرض کو بھی ’’مَغْرَمًا ‘‘ کہہ لیتے ہیں۔ قرض خواہ کو غریم کہتے ہیں، کیونکہ غرام کا معنی لازم ہونا، چمٹنا بھی ہے۔ تاوان بھی لازم ہو جاتا ہے اور قرض خواہ بھی جان نہیں چھوڑتا، سورۂ فرقان میں ہے : ﴿ اِنَّ عَذَابَهَا كَانَ غَرَامًا ﴾ [ الفرقان : ۶۵ ] ’’بے شک اس کا عذاب ہمیشہ چمٹ جانے والا ہے۔‘‘ یعنی بعض اعراب ایسے ہیں کہ زکوٰۃ ہو یا جہاد، اس کے لیے جب بھی چندہ دیتے ہیں تو اللہ تعالیٰ کی رضا جوئی کی خاطر نہیں اور نہ دلی جذبہ کے ساتھ، بلکہ محض چٹی یا جرمانہ سمجھ کر بادل ناخواستہ ادا کرتے ہیں کہ اگر ادا نہ کریں گے تو مسلمان انھیں مشتبہ نگاہوں سے دیکھیں گے اور ان کے درمیان زندگی بسر کرنا دو بھر ہو جائے گا۔ 2۔ وَ يَتَرَبَّصُ بِكُمُ الدَّوَآىِٕرَ: ’’الدَّوَآىِٕرَ ‘‘ ’’دَائِرَةٌ‘‘ کی جمع ہے، جو ’’دَارَ يَدُوْرُ دَوْرًا‘‘ (گھومنا) سے اسم فاعل ہے، چکر، گھومنے والا، یعنی وہ انتظار کر رہے ہیں کہ تم پر کب کوئی اچانک مصیبت اترتی ہے اور تم کب زمانے کے کسی چکر کے گھیرے میں آ کر زوال کا شکار ہوتے ہو، یا یہ کہ کب پیغمبر صلی اللہ علیہ وسلم فوت ہوتے ہیں اور مشرکین کو تم پر غلبہ ہوتا ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ ان کی زبانی بدگوئی اور دلی بدخواہی کو ہی نہیں، بلکہ ہر بات کو سننے والا اور ہر چیز کا علم رکھنے والا ہے۔ 3۔ عَلَيْهِمْ دَآىِٕرَةُ السَّوْءِ: ’’السَّوْءِ ‘‘ سَاءَهُ يَسُوْءُهُ سَوْءً ‘‘ سین کے فتح کے ساتھ مصدر ہے، جب کسی کے ساتھ ایسا معاملہ کیا جائے جو اسے برا لگے اور سین کے ضمہ کے ساتھ اسم مصدر ہے، یعنی یہ برا چکر انھی پر آنے والا ہے، یا بددعا ہے کہ برا چکر انھی پر آئے، مگر اللہ تعالیٰ کو بددعا کی کیا ضرورت ہے، اس صورت میں مطلب یہ ہو گا کہ ان کی اس بدخواہی کا تقاضا ہے کہ ان پر یہ بددعا کی جائے کہ برا چکر انھی پر چلے۔