وَإِذْ قَالَ إِبْرَاهِيمُ رَبِّ اجْعَلْ هَٰذَا بَلَدًا آمِنًا وَارْزُقْ أَهْلَهُ مِنَ الثَّمَرَاتِ مَنْ آمَنَ مِنْهُم بِاللَّهِ وَالْيَوْمِ الْآخِرِ ۖ قَالَ وَمَن كَفَرَ فَأُمَتِّعُهُ قَلِيلًا ثُمَّ أَضْطَرُّهُ إِلَىٰ عَذَابِ النَّارِ ۖ وَبِئْسَ الْمَصِيرُ
اور (پھر) جب ایسا ہوا تھا کہ ابراہیم نے خدا کے حضور دعا مانگی تھی (اے پروردگار ! اس جگہ کو (جو دنیا کی آباد سرزمین سے دور اور سرسبزی و شادابی سے یک قلم محروم ہے) امن و امان کا ایک آباد شہر بنا دے اور پنے فضل وکرم سے ایسا کر کہ یہاں کے بسنے والوں میں جو لوگ تجھ پر اور آخرت کے دن پر ایمان رکھنے والے ہوں ان کے رزق کے لیے ہر طرح کی پیداوار مہیا ہوجائے" اس پر ارشاد الٰہی ہوا تھا کہ (تمہاری دعا قبول کی گئی، یہاں کے باشندوں میں سے) جو کوئی کفر کا شیوہ اختیار کرے گا سو اسے بھی ہم (سروسامان رزق سے) فائدہ اٹھانے دیں گے۔ البتہ یہ فائدہ اٹھانا بہت تھوڑا ہوگا۔ کیونکہ بالآخر اسے (پاداش عمل میں) چاروناچار دوزخ میں جانا ہے اور کیا ہی برا اس کا ٹھکانا ہوا
1۔ اللہ تعالیٰ نے ابراہیم علیہ السلام کی یہ دعا بھی قبول فرمائی اور مکہ معظمہ کو امن والا شہر بنا دیا۔ اب حرم کی حدود میں کسی کا خون بہانا، اس کے درختوں کو کاٹنا، شکار کو بھگانا وغیرہ جائز نہیں اور رزق کی وہ فراوانی فرمائی کہ مکہ میں کھیتی باڑی نہ ہونے کے باوجود وہاں سارا سال دنیا بھر کے تازہ پھل اور ہر قسم کا غلہ اتنی فراوانی سے ملتا ہے کہ ابراہیم علیہ السلام کی دعا کی قبولیت آنکھوں سے نظر آتی ہے۔ 2۔اس سے پہلے ابراہیم علیہ السلام نے اپنی اولاد کے لیے امامت کی دعا کی تو اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ میرا عہد ظالموں کو نہیں پہنچتا، اب ابراہیم علیہ السلام نے رزق کی دعا ظالموں کو نکال کر صرف ایمان والوں کے لیے کی تو اللہ تعالیٰ نے فرمایا، میں دنیاوی رزق کفار کو بھی دوں گا، البتہ آخرت میں ان کے لیے عذاب ہے۔ معلوم ہوا دنیا میں کسی کے پاس رزق کی کثرت اس پر اللہ تعالیٰ کے خوش اور راضی ہونے کی دلیل نہیں ۔