الْأَعْرَابُ أَشَدُّ كُفْرًا وَنِفَاقًا وَأَجْدَرُ أَلَّا يَعْلَمُوا حُدُودَ مَا أَنزَلَ اللَّهُ عَلَىٰ رَسُولِهِ ۗ وَاللَّهُ عَلِيمٌ حَكِيمٌ
اعرابی کفر اور نفاق میں سب سے زیادہ سخت ہیں اور اس کے زیادہ مستحق ہیں کہ ان کی نسبت سمجھا جائے دین کے ان حکموں کی انہیں خبر نہیں جو اللہ نے اپنے رسول پر نازل کیے ہیں (کیونکہ آبادیوں میں نہ رہنے کی وجہ سے تعلیم و تربیت کا موقع انہیں حاصل نہی) اور اللہ (سب کا حال) جاننے والا (اپنے تمام کاموں میں) حکمت رکھنے والا ہے۔
1۔ اَلْاَعْرَابُ اَشَدُّ كُفْرًا وَّ نِفَاقًا....: ’’اَلْاَعْرَابُ ‘‘ عرب کے صحرا اور بادیہ میں رہنے والوں کے لیے اسم جنس ہے، واحد کے لیے ’’اَعْرَابِي‘‘ اور مؤنث کے لیے ’’اَعْرَابِيَّةٌ‘‘ استعمال ہوتا ہے، جمع ’’اَعَارِيْبُ‘‘ ہے ’’اَلْعَرَبُ ‘‘ اس نسل کے لیے اسم جنس ہے جو عربی زبان بولتی ہے، خواہ شہری ہو یا بادیہ نشیں، اس کا واحد ’’عَرَبِيٌّ‘‘ آتا ہے۔ یہاں اعراب سے مراد ان کی جنس کے بعض افراد ہیں ہر شخص نہیں، کیونکہ ان میں سے بعض مخلص اہل ایمان کا ذکر آئندہ آیات میں آ رہا ہے۔ 2۔ ’’ اَلْاَعْرَابُ ‘‘ سے مراد وہ لوگ ہیں جو مدینہ منورہ سے دور دیہاتی اور صحرائی علاقوں میں رہتے تھے، ان میں سے اکثر اسلام کی دعوت کو سمجھ کر سچے دل سے مسلمان نہیں ہوئے تھے، بلکہ محض اسلام کی بڑھتی ہوئی طاقت سے مرعوب ہو کر مسلمان ہو گئے تھے۔ انھیں شہر (مدینہ منورہ) میں آنے، مسلمانوں سے میل جول رکھنے اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی صحبت سے فیض یاب ہونے کا بہت کم موقع ملا تھا، اس لیے یہ نرے گنوار اور اجڈ قسم کے لوگ تھے، جن کے دلوں میں نہ نرمی پیدا ہوئی تھی اور نہ انھیں علم کی ہوا لگی تھی۔ اس لیے ان میں جو منافق تھے ان کا نفاق بھی اہل مدینہ کے نفاق سے سخت تھا۔ بعض اہل علم نے لکھا ہے کہ بدوی اور شہری لوگوں کی طبیعتوں میں وہی فرق پایا جاتا ہے جو ایک باغ کے میوے اور پہاڑی درخت کے میوے میں محسوس ہوتا ہے۔ اس لیے اللہ تعالیٰ نے رسولوں کو بستیوں سے مبعوث فرمایا : ﴿ وَ مَاۤ اَرْسَلْنَا مِنْ قَبْلِكَ اِلَّا رِجَالًا نُّوْحِيْۤ اِلَيْهِمْ مِّنْ اَهْلِ الْقُرٰى ﴾ [ یوسف : ۱۰۹ ] ’’اور ہم نے تجھ سے پہلے نہیں بھیجے مگر کچھ مرد، جن کی طرف ہم ان بستیوں والوں میں سے وحی کیا کرتے تھے۔‘‘ اور آخری رسول صلی اللہ علیہ وسلم کو تمام بستیوں کی ماں ام القریٰ مکہ میں پیدا فرمایا، تاکہ وہ شہری معاشرے کی شائستگی اور نرم دلی کے حامل ہوں۔ شاہ عبد القادر رحمہ اللہ لکھتے ہیں : ’’بدویوں کی سرشت میں بے حکمی، مفاد پرستی اور جہالت رچی بسی ہوئی ہے، اس لیے اللہ تعالیٰ نے اپنی کمال حکمت سے نہ ان پر زیادہ ذمہ داری ڈالی اور نہ ان کو درجات کی بلندی عطا ہوئی۔‘‘ (موضح) لوگوں کے ساتھ میل جول کی کمی کی وجہ سے طبیعت میں سختی پیدا ہو جانا فطری سی بات ہے۔ عبد اللہ بن عباس رضی اللہ عنھما سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : ’’جو بادیہ میں سکونت رکھے وہ سخت دل ہو جاتا ہے، جو شکار کے پیچھے ہی لگ جائے وہ غافل ہو جاتا ہے اور جو سلطان کے پاس آئے وہ آزمائش میں ڈال دیا جاتا ہے۔‘‘ [ أحمد :1؍357، ح : ۳۳۶۱۔ أبوداؤد : ۲۸۵۹۔ ترمذی : ۲۲۵۶۔ نسائی : ۴۳۱۴، وصححہ الألبانی ] بعض اعراب کی سخت دلی پر اس حدیث سے کافی روشنی پڑتی ہے جو ام المومنین عائشہ رضی اللہ عنھا نے بیان فرمائی کہ اعراب کے کچھ لوگ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آئے (انھوں نے آپ کو حسن یا حسین رضی اللہ عنھما کو چومتے دیکھا) تو کہنے لگے : ’’کیا تم لوگ اپنے بچوں کو چومتے ہو؟‘‘ لوگوں نے کہا : ’’ہاں!‘‘ تو وہ کہنے لگے : ’’لیکن اللہ کی قسم! ہم تو نہیں چومتے!‘‘ تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : ’’اور کیا میں اختیار رکھتا ہوں، اگر اللہ نے تم سے رحم کرنا نکال لیا ہے۔‘‘ [ مسلم، الفضائل، باب رحمتہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم الصبیان....: ۲۳۱۷۔ بخاری : ۵۹۹۸ ] مفسرین نے اس مقام پر اعراب کی سخت دلی کے کئی واقعات لکھے ہیں۔