يَعْتَذِرُونَ إِلَيْكُمْ إِذَا رَجَعْتُمْ إِلَيْهِمْ ۚ قُل لَّا تَعْتَذِرُوا لَن نُّؤْمِنَ لَكُمْ قَدْ نَبَّأَنَا اللَّهُ مِنْ أَخْبَارِكُمْ ۚ وَسَيَرَى اللَّهُ عَمَلَكُمْ وَرَسُولُهُ ثُمَّ تُرَدُّونَ إِلَىٰ عَالِمِ الْغَيْبِ وَالشَّهَادَةِ فَيُنَبِّئُكُم بِمَا كُنتُمْ تَعْمَلُونَ
جب تم (جہاد سے لوٹ کر) ان کے پاس واپس جاؤ گے تو وہ آئیں گے اور تمہارے سامنے (طرح طرح کی) معذرتیں کریں گے۔ (اے پیغمبر) تمہیں چاہیے (اس وقت) کہہ دو معذرت کی باتیں نہ بناؤ، اب ہم تمہارا اعتبار کرنے والے نہیں، اللہ نے ہمیں پوری طرح تمہارا حال بتلا دیا ہے، اب آئندہ اللہ اور اس کا رسول دیکھے گا تمہارا عمل کیسا رہتا ہے (نفاق پر مصر رہتے ہو یا باز آتے ہو) اور پھر (بالآخر) اسی کی طرف لوٹائے جاؤ گے جو ظاہر و پوشیدہ ہر طرح کی باتیں جاننے والا ہے، پس وہ تمہیں بتلائے گا کہ ( دنیا میں) کیا کچھ کرتے رہے ہو۔
1۔ يَعْتَذِرُوْنَ اِلَيْكُمْ....: جیسا کہ پہلے گزرا کہ یہ سلسلۂ آیات تبوک سے واپسی پر نازل ہوا، اللہ تعالیٰ نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو پہلے ہی ان کے جھوٹے بہانوں کی اطلاع دے دی اور ساتھ ہی حکم دیا کہ ان سے کہہ دو کہ بہانے مت تراشو، ہم کسی صورت تمھارا اعتبار نہیں کریں گے، کیونکہ اللہ تعالیٰ نے ہمیں تمھاری کچھ خبریں بتا دی ہیں۔ اب دیکھا جائے گا کہ تمھارا آئندہ رویہ کیا رہتا ہے، آیا تم موجودہ روش سے باز آتے ہو یا اسی پر جمے رہتے ہو۔ 2۔ وَ سَيَرَى اللّٰهُ عَمَلَكُمْ وَ رَسُوْلُهٗ: یہ عبارت یوں بھی ہو سکتی تھی کہ ’’وَ سَيَرَي اللّٰهُ وَ رَسُوْلُهُ عَمَلَكُمْ‘‘ کہ عنقریب اللہ اور اس کا رسول تمھارا عمل دیکھیں گے، مگر مفعول ’’ عَمَلَكُمْ ‘‘ کو ’’ رَسُوْلُهٗ ‘‘ سے پہلے لانے کا صاف مطلب یہ ہے کہ اصل دیکھنے والا اور نگرانی کرنے والا اللہ تعالیٰ ہی ہے، کیونکہ وہ ظاہر و باطن سے واقف ہے۔ اس کے بعد اللہ کے رسول بھی تمھارا عمل جو سامنے ہو گا دیکھیں گے، لیکن رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو اگر ظاہری عمل سے مطمئن کر بھی لو اور تمھاری دلی کیفیت درست نہیں تو پھر تمھیں غائب و حاضر کو جاننے والے کے سامنے بھی حاضر ہونا ہے اور وہ تمھیں تمھاری اصل حقیقت سے آگاہ کرے گا۔ بعض شرک کے بیماروں نے اس آیت سے استدلال کیا ہے کہ اللہ تعالیٰ ہمارے حالات سے واقف ہے اور اس کا رسول بھی، کیونکہ اس آیت کے مطابق وہ دونوں سب کچھ دیکھ رہے ہیں۔ آیت کا مطلب تو اوپر بیان ہو چکا ہے مگر یہ حضرات اسی سورت کی آیت (۱۰۵) کا کیا کریں گے کہ جس میں ہے : ’’اور کہہ دے تم عمل کرو پس عنقریب اللہ تمھارا عمل دیکھے گا اور اس کا رسول اور ایمان والے بھی۔‘‘ تو کیا اللہ کے سوا رسول اور مومنین بھی سب کچھ دیکھ رہے ہیں اور ہر بات سے واقف ہیں؟ مومن ہونے کا خیال تو ان حضرات کا اپنے بارے میں بھی ہو گا، ذرا اپنی حیثیت اور علم کی رسائی پر غور فرما لیں تو بہت جلد بات سمجھ میں آجائے گی۔ سورۂ نمل کی آیت (۶۵) اور اعراف کی آیت (۱۸۸) پر بھی ایک نظر ڈال لیں اور اسی سورۂ توبہ کی آیت (۱۰۱) ﴿ لَا تَعْلَمُهُمْ نَحْنُ نَعْلَمُهُمْ﴾ پر بھی غور فرما لیں۔ 3۔ ان آیات میں منافقین کو اخلاص کی طرف پلٹنے کی دعوت بھی ہے، یہ اللہ تعالیٰ کا خاص کرم ہے کہ منافقین کو بھی اسی طرح بار بار بلاتا ہے کہ ہاں عمل کرو ہم تمھاری نگرانی کر رہے ہیں، اگر پلٹ آؤ گے تو ہم معاف کر دیں گے اور فی الواقع کئی منافقین اخلاص کی دولت سے سرفراز بھی ہوئے۔ دیکھیے سورۂ توبہ (۶۶) اور نساء (۴۴، ۴۵)۔